خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ پر واقعی علاج بند ہونے جا رہا ہے؟
خالدہ نیاز
ضلع نوشہرہ کی 37 سالہ رابعہ صحت کارڈ کی بندش کی خبروں کے حوالے سے کافی پریشان ہے۔ رابعہ کے شوہر محنت مزدوری کرکے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہیں لیکن کچھ عرصے سے ان کے شوہر کے پیٹ میں درد شروع بے حال ہوجاتا ہے۔ رابعہ کے شوہر پیٹ کا آپریشن بھی کرچکے ہیں تاہم انہیں ڈر ہے کہیں دوبارہ مسئلہ زیادہ نہ ہوجائے اور اس کو ہسپتال میں داخل نہ کرنا پڑے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے رابعہ نے بتایا کہ مہنگائی کے اس دور میں ان کے لیے علاج کرنا مشکل ہے صحت کارڈ ان کی آخری امید ہے تاہم جب سے صحت کارڈ بند ہونے کی خبریں چل رہی ہے تب سے انہیں تشویش نے گھیر لیا ہے کیونکہ اگر صحت کارڈ پہ علاج بند ہوگیا تو ان کے لیے علاج کرنا ناممکن ہوجائے گا۔
رابعہ کے علاوہ اور بھی لاکھوں لوگ صحت کارڈ پہ علاج کی بندش کی خبروں سے پریشان ہیں تاہم صحت کارڈ پلس خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹیو افیسر محمد ریاض تنولی نے صحت کارڈ کے ختم ہونے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے عوام کے لیے یہ سہولت جاری رہے گی۔
صحت کارڈ پہ علاج معطل ہونے کے نوٹسز کیوں آتے ہیں؟
ٹی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے صحت کارڈ پلس خیبر پختونخوا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر محمد ریاض تنولی نے کہا کہ صحت کارڈ پہ علاج کے لیے خرچہ آتا ہے جو سٹیٹ لائف ادا کرتا ہے اور سٹیٹ لائف کو پیسے حکومت دیتی ہے لیکن جب سٹیٹ لائف کو بروقت پیسوں کی ادائیگی نہیں ہوتی تو وہ ایک نوٹس جاری کرتے ہیں اور اس کے بعد میڈیا میں بھی یہ خبر پھیل جاتی ہے تاہم یہ صرف نوٹس ہوتا ہے اور مفت علاج کا سلسلہ جاری ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سٹیٹ لائف کو بروقت پیسوں کی ادائیگی ہوجائے تو نوٹس نہیں آئیں گے تاہم جب بھی نوٹس آتا ہے تو حکومت متحرک ہوجاتی ہے اور پیسوں کی ادائیگی کردی جاتی ہے. انہوں نے کہا ہے کہ صحت کارڈ پلس کی سہولیات معطل ہونے کے حوالے سے نوٹسز مستقبل میں بھی آتے رہیں گے تاہم اس پہ علاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے کچھ عرصے سے یہ خبریں سامنے آرہی ہے کہ صحت کارڈ پر علاج کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ چند روز قبل ایک دو روز کے لیے صحت کارڈ پر علاج بند کردیا گیا تھا تاہم بعد ازاں بحال کردیا گیا۔
خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ پر 22 لاکھ سے زائد افراد کا علاج کیا جا چکا ہے
ریاض تنولی کے مطابق خیبر پختونخوا میں اب تک صحت کارڈ پر 22 لاکھ سے زائد افراد کا علاج کیا جا چکا ہے جبکہ مالی سال 22۔23 میں اب تک 13 لاکھ صحت کارڈ سے مستفید ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت کارڈ اپنی نوعیت کا ایک بہت اچھا منصوبہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو علاج کی مفت ملی ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو شاید بہت سارے غریب لوگ علاج سے محروم رہ جاتے۔
نوشہرہ کی 33 سالہ فرزانہ نے صحت کارڈ کو ایک بہت اچھا منصوبہ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ غریب عوام کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ میرے چوتھے بچے کی ڈیلیوری تھی جب میں پشاور کے پرائیویٹ ہسپتال گئی، وہاں کا علاج کافی مہنگا تھا ہمارا تقریبا 45 ہزار تک خرچ ہوجاتے اگر صحت کارڈ کی سہولت نہ ہوتی۔
فرزانہ کا کہنا ہے کہ صحت کارڈ پر نہ صرف اچھے ہسپتالوں میں مفت علاج ہوتا ہے بلکہ مریضوں کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اس لیے حکومت کو چاہئے کہ اس سہولت کو کبھی ختم نہ کریں۔ محمد ریاض تنولی کا کہنا ہے کہ داخلے کی صورت میں صحت کارڈ پر علاج کیا جاتا ہے چاہے وہ آپریشن ہو یا صرف علاج۔
صحت کارڈ سے جلد او پی ڈی والے مریض بھی استفادہ کرسکیں گے
ایک سوال کے جواب میں ریاض تنولی نے بتایا کہ فی الحال صحت کارڈ پر صرف داخلے کی صورت میں علاج کی سہولت دی جارہی ہے لیکن اس سال کے آخر میں ان کا ایک پائلٹ منصوبہ آئے گا جو مردان اور کوہاٹ سمیت چار ضلعوں میں ہوگا جس میں او پی ڈی آنے والے مریض بھی صحت کارڈ پہ علاج کرسکیں گے۔ یہ منصوبہ دو سال کے لیے ہوگا اور کامیابی کی صورت میں اس کو مرحلہ وار باقی اضلاع تک توسیع دی جائے گی۔
صحت کارڈ پہ علاج نہ ہونے اور دوسری شکایات کی صورت میں عوام کہاں جاسکتے ہیں اس حوالے سے محمد ریاض تنولی نے بتایا کہ اول تو ہر ہسپتال کا ترجمان موجود ہوتا ہے تاہم جن ہسپتالوں میں صحت کارڈ پہ علاج ہوتا ہے وہاں سٹیٹ لائف کا فیسلیٹشن ڈیسک ہوتا ہے جہاں لوگ جاکر شکایات درج کرواسکتے ہیں۔ وہاں فوری طور پر شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 080089898 پر بھی لوگ کال کرسکتے ہیں۔ یہ ٹول فری نمبر 24 گھنٹے فعال ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بڑے ہسپتالوں میں شکایات بکسز میں بھی لوگ کمپلینٹ ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے خیبرپختونخوا کے عوام کو پیغام دیا ہے کہ نگران حکومت نے مشکل حالات کے باوجود اس منصوبے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام صحت کارڈ کے حوالے سے پریشان نہ ہو یہ منصوبہ جاری رہے گا اور لوگوں کو علاج کی مفت سہولیات ملتی رہیں گی۔