صحت سب کے لئے۔۔۔ لیکن ہم یہ کبھی نہیں سمجھیں گے
اکرام اللہ مروت
اگر دیکھا جائے تو عالمی ادارہ برائے صحت یعنی (WHO)کا قیام آج سے ٹھیک 75سال پہلے آج ہی کے دن یعنی 7 اپریل 1948 کو عمل میں لایا گیا تاکہ عالمی سطح پر عوام کی صحت کو عالمی معیار کے قواعد وضوابط کے عین مطابق رکھنے کی سنجیدہ کوششیں کی جاسکے۔ گوگل کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس سے پہلے دسمبرسال 1945میں برازیل اورچین کے حکام نے ایک ایسے آزاد ادارے کے قیام کی تجویز دی تھی جو عوام کی صحت پر بغیر کسی حکومتی دباؤ کے نظر رکھ سکے۔ ٹھیک آدھ سال بعد جولائی 1946میں نیویارک میں 61 ممالک کے دستخطوں کے ساتھ عالمی ادارہ صحت کا آئین منظور کرلیا گیا۔ اور یہ طے کرلیا گیا کہ یہ آئین 7 اپریل سال 1948 سے لاگو ہوگا ۔ پہلے پہل یہ دن 22 جولائی 1949 کو منایا گیا لیکن بعد ازاں اس دن کو عالمی ادارہ صحت WHO کے قیام والے دن یعنی 7اپریل کے ساتھ منسلک کیا گیا اور اسکے بعد سے یہ دن ہر سال اپریل کے مہینے کی سات تاریخ کو منایا جاتا ہے اور ہر سال اسکا ایک عنوان ہوتا ہے۔ امسال اس دن کو "صحت سب کیلئے”عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔ عنوان ممبر ممالک کی طرف سے مہیا کردہ تجاویز کی روشنی میں عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل منتخب کرتے ہیں۔ اور یہ دن موقع فراہم کرتاہے کہ عالمی سطح پر انسانی صحت کو درپیش مسائل کی طرف عالمی برادری کی توجہ دلائی جائے۔ اور ان مسائل کی ممکنہ روک تھام کیلئے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے۔
پشتو میں ایک محاورہ ہے کہ "پچاس پیسے کی بندر نہ تھی اور پورے ایک روپے کی زنجیر بھگا کے لے گیا”مطلب یہ کہ ہم تیسری دنیا کے ممالک سے تعلق رکھنے والے یعنی سادہ الفاظ میں غریب طبقے کے لوگ ” بیچارے” سو روپے بچانے کی لالچ میں اکثر اوقات لاکھوں کے قرضدار بن جاتے ہیں۔ کیونکہ اچھی صحت برقرار رکھنے کیلئے متوازن غذا کی ضرورت اور ہم ہیں کہ متوازن غذا کو لفٹ ہی نہیں کرتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دودھ یا پھل بچوں کیلئے خریدنے کی بجائے ان تھوڑے پیسوں کی بچت کرلینگے تاکہ کل کسی ایمرجنسی میں یہ بچت کئے ہوئے پیسے کام آجائیں۔ لیکن ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم اپنے بچوں کو کس تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ ہماری اس کوتاہی کی وجہ سے ہمارے بچے ایسے امراض کا شکارہو جاتے ہیں کی وہ نہ جسمانی طور پر اور نہ ذہنی طور اس قابل ہو تے ہیں کہ ہم انہیں صحت مند انسان کہہ سکیں۔ انگریزی کا مشہور قول ہے کہ "A sound mind lies in a sound body” یعنی صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ کہ بندہ خود کو فٹ رکھنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر ورزش کریں، صحت مند غذا کھائیں اور جب آپ جسمانی طور پر صحت مند ہونگے تو آپ ذہنی طور پر بھی اچھی کارکردگی دکھانے کے قابل ہونگے اور اسطرح آپ ملک وقوم کا نام کسی بھی میدان میں روشن کرنے کے پوزیشن میں آجاتے ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہوتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ "اپنی چادر سے پاؤں باہر پھیلانے کی کوشش نہ کریں "ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ہم اپنی زندگی عالمی معیار کے مطابق رکھ سکیں اور نہ ہمارے بچوں کی تربیت اس نہج کی ہوتی ہے کیونکہ ہم ہر کام بغیر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرتے ہیں۔ ہم اتنے بچے پیدا کردیتے ہیں کہ بعد میں انکو سنبھالنا لوہے کے دانوں کو چھبانے کے مترادف ہوتاہے۔ آج کل پاکستان میں ایک جوڑے کے بچوں کی بہترین تعداد زیادہ سے زیادہ تین ہے لیکن مجال ہے کہ ہم کم ازکم چھ سے پہلے روک جائیں۔ چھ کی تعداد تک پہنچ کر جو اس بارے میں سوچتا ہے وہ عقلمند سمجھا جاتا ہے۔ اب بھلا چھ بچے پیدا کرنے کے بعد سوچنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے لیکن دیر اید درست اید کے مصداق وہ اٹھ یا دس بچوں والوں سے پھر بھی بہتر ہوتا ہے۔ ہم اکثر اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ اسلام زیادہ بچوں کی ترغیب دیتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ دعا مانگا کریں کہ اپکی بیویاں اور اولاد اپکی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو امدن کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے گھر کا نظام چلانا مشکل ہوجاتاہے۔ نہ بچوں کی مناسب غذا کا خیال رکھا جاسکتا ہے اور نہ انکی تعلیم و تربیت بہتر طریقے سے کی جاسکتی ہے اور ایسی اولاد پھر ماسوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ہوتی۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی کل آبادی تقریباً 35 میلین یعنی 3 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں 52 فیصد مرد جبکہ 48 فیصد خواتین ہیں جو ملک کی کل آبادی کا 11.9فیصد بنتی ہیں۔ اور یہاں شرح تعلیم 53 فیصد ہے۔ خیبر پختونخوا میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.89 فیصد ہے جبکہ پنجاب میں یہ شرح2.13 فیصد، سندھ میں 2.41 فیصد، بلوچستان میں 3.37 فیصد جبکہ گلگت بلتستان میں یہ شرح 2.87 فیصد ہے۔ اب اگر دیکھا جائے توآبادی میں اسی رفتار سے اضافہ جاری رہا تو پاپولیشن کونسل پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2050 میں ہمارے صوبے کی آبادی 5 کروڑ 80 لاکھ ہوجائیگی۔ یہاں سالانہ 1900 مائیں کم عمری میں شادی کرنے، ڈیلیوری سہولیات نہ ہونے یا عمل ِزچگی میں پیچیدگیاں ہونے کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔جبکہ ہر ایک ہزار میں تقریباً 53 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ضائع ہو جاتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان سب اموات کیلئے ذمے دار بحیثیتِ قوم ہم سب ہیں۔
پاکستان میں 15 سے 19 سال تک کی نوجوان خواتین کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (PDHS.2017-18) اور Adding It Upپراجیکٹ کے اعداد وشمار کے مطابق 15 سے 19 سال کی تقریباً 6 لاکھ 17ہزار شادی شدہ لڑکیاں ہر سال حاملہ ہوجاتی ہیں جن میں 36 فیصد لڑکیوں کا حمل غیر ارادی ہوتا ہے اور ان غیر ارادی حمل کا نصف سے زیادہ یعنی 58 فیصد کا نتیجہ اسقاطِ حمل جبکہ 12 فیصد کا حمل ضائع ہوجاتا ہے یا پھر مردہ بچے پیدا ہو جاتے ہیں جبکہ 30 فیصد یعنی 4.15 میلین غیر ارادی زچگیاں ہوجاتی ہیں جس سے ملک کی آبادی پر غیر ارادی بوجھ بن کر پہلے سے کم وسائل رکھنے والے ملک پاکستان کیلئے مزید معاشی مشکلات کا سبب بن جاتا ہے۔
34 سالوں سے شعبہ گائنی سے وابستہ ڈاکٹر نائلہ کا کہنا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صنفی عدم مساوات کی وجہ سے اپنی بچیوں کی زندگیاں اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم خوراک اور دیگر تمام معاملات میں بچے کو بچی پر ترجیح دیتے ہیں اور جسکی وجہ سے انکی جسمانی صحت میں خطرناک کمزوریاں جنم لیتی ہیں۔ دوسری یہ کہ انہی کمزوریوں کے علاوہ انکی صحت پوری طرح اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ انکے جسمانی اعضاء خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوں۔ سنِ بلوغت تک پہنچنے کیلئے جو تبدیلیاں ابھی پوری طرح مکمل نہیں ہوئیں اور ہم انکی شادی کرلیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ مزید اندھیروں میں دھکیل دی جاتی ہے۔ انکے جسم میں اگر آئرن اور کیلشیم کی کمی کا سامنا ہے۔ وہ اپنا بوجھ اٹھا سکنے کے قابل بھی نہیں اور اس بیچاری کو اپنے بچے پیدا کرنے کیلئے بے وقت مجبور کیا جائے تو آپ بتائیں کہ کیا ایسی بچی صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے؟ نہیں۔ بالکل بھی نہیں۔ اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ آنیوالی نسلیں نہ صرف جسمانی طور پر اس قابل ہونگی کہ وہ کو ئی کارہائے نمایا ں دکھا سکے اور نہ وہ ذہنی طور کوئی کارنامہ دکھا سکنے کے قابل ہونگے۔ اسلئے ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور والدین کو بھی چاہئے کہ وہ خدارا اپنی بچیوں کو اندھے کنویں میں دھکیلنے سے گریز کریں۔ اور جب اپکی بچی کم ازکم 18 سال کی ہو جائے تو بے شک انکی شادی آپ کر سکتے ہیں۔ جسکا فائدہ یہ ہوگا کہ بچی بھی ذہنی طور عمرِ پختگی کو پہنچ چکی ہوگی اور جسمانی طوربھی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے اور صرف صحت مند بچے ہی معاشرے اورہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔
عالمی یومِ صحت منانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے سب انسانوں کی بہتر صحت کیلئے اقدامات اٹھا کر کمزور معیشت رکھنے والے ممالک کی مدد کی جا ئے۔ لیکن چونکے دنیا کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ دنیا میں موجودہ وسائل کی دسترس سے باہر ہے۔ اور اب وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر انسان اپنی چادر میں رہ کر پاؤں پھیلائیں۔ نئے شادی شدہ جوڑوں کو بھی اپنی زندگی کے اس نئے سٹیج پر بڑوں کی طرف سے رہنمائی فراہم کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے اور اسمیں کوتاہی بالکل بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ وہ بیچارے نا سمجھ ہوتے ہیں ایک تو کم عمری میں ان کو شادی کے دھاگے سے باندھا جاتا ہے اور دوسرا انکو سمجھانے اور ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی زندگی کو وسائل کے عین مطابق ڈالنے کی کوئی خاص تربیت بھی سماجی بنیادوں پر اور نہ سرکاری سطح پر دی جاتی ہے جسکا خمیازہ ہم سسک سسک کر جینے کی صورت میں بھگت رہے۔