دیر بالا میں ٹائیفائیڈ کی نئی قسم کی تشخیص، ایک ماہ میں درجنوں افراد ہسپتال منتقل
زاہد جان دیروی
دیر بالا میں ٹائیفائیڈ کی نئی قسم کے پھیلنے سے پہلی بار مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے جس میں عام ٹائیفائیڈ کی نسبت مریض کی صحتیابی میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال دیر انتظامیہ کے مطابق فروری سے لیکر اب تک ٹائیفائیڈ کی نئی قسم کے سو سے زائد مریض داخل کئے گئے ہیں جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق حالیہ ٹائیفائیڈ میں مریض کو بخار، شدد درد اور علاج کے دورانیے میں اضافہ سامنے آ رہا ہے۔
ہسپتال کے میڈیکل وارڈ میں داخل مصطفیٰ خان بھی ٹائیفائیڈ بخار کی نئی قسم میں مبتلا ہے۔ ان کے مطابق وہ کئی روز سے بخار اور شدد درد سے گزر رہے تھے اور انہوں نے مختلف جہگوں پر علاج کروایا تاہم بیماری کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی اور وہ مزید علاج کے لئے ڈی ایچ کیو ہسپتال دیر میں داخل ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ سات روز کے بعد اب ان کی حالت ٹھیک ہے اور وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں تاہم ٹائیفائیڈ کی اس قسم شدید تکلیف انہیں پہلے کبھی نہیں ہوئی جبکہ ان کے علاوہ وارڈ میں زیر علاج دیگر مریض بھی اس مشکلات سے گزر رہے ہیں۔
ادھر پناہ کوٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون بھی ٹائیفائیڈ کا شکار ہونے والے چھ سالہ بیمار بچے کے ساتھ وارڈ میں موجود ہے۔ انہوں نے بتایا ہسپتال میں بیٹے کا علاج جاری ہے اور ہمیں ہزاروں روپے کی مفت ادویات فراہم کی جاری ہے کیونکہ ٹائیفائیڈ کے مہنگے انجکیش خریدنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ڈی ایچ کیو کے ماہر ڈاکٹر حنیف اللہ نے اس حوالے سے بتایا عام ٹائیفائیڈ میں مریضوں کا علاج انٹی بائیوٹیک میڈیسن سے کیا جاتا ہے تاہم اس نئی قسم معیادی بخار میں مریض کا علاج روایتی انٹی بائیوٹیک ( نارمل کنوینشل) سے ممکن نہیں جس سے مریض کے صحتیاب ہونے کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ ٹائیفائیڈ کی علامات ایک جیسے ہیں اور یہ بیماری ایک صحتیاب انسان کو آلودہ پانی سے لاحق ہوتی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس نئی قسم ٹائیفائیڈ میں ریسرچ کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یہ بیماری گاؤں، محلوں اور بازاروں میں نان پروفیشنل لوگوں کی جانب سے مریضوں کو غیر روایتی، غیر معیاری اور نامناسب ادویات دینے کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے جس کی وجہ سے روایتی میڈیسن کا اس بیماری میں مریض پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر حنیف کہتے ہیں اس صورتحال میں جب مریض ان کے ہاں جاتے ہیں تو انہیں سات سے 10 روز تک ہائی انٹی بائیوٹیک دیا جاتا ہے جس کے بغیر مریض کا علاج اور صحتیابی ممکن نہیں جبکہ اس ایک انجکیشن کی قیمت مارکیٹ میں تین ہزار روپے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاج کے طویل دورانیے اور مہنگے ادویات کی وجہ سے یہ اخراجات 60 ہزار سے 90 ہزار روپے تک آتے ہیں۔
دوسری جانب میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈی ایچ کیو ڈاکٹر امتیاز احمد کے مطابق پچھلے سال بھی ٹائیفائیڈ کے ہزاروں مریض ہسپتال لائے گئے تھے تاہم آپر دیر میں پہلی بار ٹائیفائیڈ کی نئی قسم کے شکار مریض آئے ہیں جو عام ٹائیفائیڈ سے زیادہ خطرناک ہے۔
ان کے بقول اس بیماری کے پھیلنے کی وجہ دریاؤں کے قریب ہوٹلز، آلودہ پانی کے دریاؤں میں گرنا اور پینے کے صاف پانی میں گندگی کے ذرات ہونا ہے اس لئے عوام کو چاہئے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے صاف پانی کا استعمال اور ماہر ڈاکٹروں سے علاج کریں۔