‘جب 16 لاکھ روپے کے آپریشن پر ایک پیسہ بھی نہ لگا’
عصمت خان
حیات بی بی کے سر میں مخلتف جسامت کی تین رسولیاں تھیں جن کا علاج پشاور میں ممکن نہ تھا جبکہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں آپریشن کرنے پر 12 سے 16 لاکھ روپے کا خرچہ آتا تھا، پشاور کے علاقے گلہبار میں رہائش پذیر 42 سالہ حیات بی بی کے شوہر انتقال کرگئے ہیں اور دو بچوں کی کفالت کی وجہ سے وہ اپنی علاج کے لئے فکر مند تھی۔
ان کے مطابق ایک دوست سے گفدو شنید کے بعد معلوم ہوا کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں صحت انصاف کارڈ کے ذریعے میرا علاج ممکن ہے جس کے بعد میں نے وہاں جاکر معلومات حاصل کرلی اور چار مہنے پہلے میرے تینوں رسولیوں کا کامیاب آپریشن ہوگیا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت جانے کے بعد خدشہ تھا کہ صحت کارڈ بھی سیاست کی نظر ہوکر متاثر ہوجائے تاہم صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد اور خیبرپختونخوا میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود یہ پروگرام متاثر نہیں ہوا اور نگران حکومت نے اس منصوبے کے لیے فنڈز جاری کرکے تعاون بڑھایا۔
پبلک ہیلتھ کیئر سروس کی مفت یا رعایتی فراہمی ان مراعات اور ترجیحات میں سے ایک ہے جو کسی بھی حکومت کی طرف سے عوام کو پیش کی جاتی ہے۔ ہر سیاسی حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی صحت کی دیکھ بھال اور خدمات کی فراہمی کے پروگرام شروع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس سلسلے میں خیبرپختونخوا کی سابق حکومت نے دسمبر 2015 میں سماجی تحفظ کے اقدام کے تحت ’صحت کارڈ پلس‘ پروگرام کا آغاز کیا، جس میں ابتدائی طور پر صوبے کے تقریباً 50 فیصد لوگوں کا مفت طبی اور سرجیکل علاج شامل تھا۔
بنیادی طور پر، یہ پروگرام کوہاٹ، مردان، مالاکنڈ اور چترال کے اضلاع میں شروع کیا گیا تھا جس میں 1.8 ملین غریب گھرانے (تقریباً 150 ملین افراد) صوبے کے نامزد ہسپتالوں میں 540,000 روپے تک کا مفت علاج حاصل کرنے کے حقدار تھے۔
بعد ازاں فروری 2019 میں، اس پروگرام کو دوسرے مرحلے میں خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع سمیت ملک بھر میں توسیع دی گئی جس کا ہدف 1000 نامزد ہسپتالوں میں 80 ملین سے زائد افراد پر مشتمل ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک مفت علاج بشمول سرجری اور ادویات فراہم کرنا تھا۔
صحت کارڈ پلس پروگرام کے پی، کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ریاض تنولی نے کہا کہ مالی رکاوٹوں کے باوجود خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ پلس (ایس سی پی) کے تحت علاج جاری رہا اور دوسرے مرحلے میں 30 ارب روپے کے اخراجات کی مراعات سے تقریباً 9.7 ملین خاندان مستفید ہوئے۔
ان کے بقول پہلے مرحلے میں 23 لاکھ افراد نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا اور ان کے علاج پر چھ ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ اس پروگرام نے ابتدائی طور پر 2015 میں چار اضلاع میں تین فیصد آبادی کا احاطہ کیا تھا اور بعد میں اسے تین مختلف مراحل میں نومبر 2019 تک صوبے کی بالترتیب 51، 70 اور 100 فیصد آبادی تک بڑھا دیا گیا۔
تنولی کے مطابق حکومت ایس سی پی کے تحت اخراجات برداشت کرنے کے لیے ایس ایل آئی سی کو ماہانہ 2.5 بلین روپے دیتی ہے اور انشورنس کمپنی واجبات کے عوض رقم سے 1.5 بلین روپے اپنے پاس رکھتی ہے اور باقی ہسپتالوں کو ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت اب تک ایس ایل آئی سی کو 4 ارب روپے جاری کر چکی ہے اور بقایا رقم رواں سال مئی تک کلیئر کر دی جائے گی۔ ڈاکٹر ریاض تنولی نے کہا کہ چیف سیکرٹری کے ساتھ حالیہ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مالی مجبوریوں کے باوجود ایس سی پی پروگرام کو معطل نہیں کیا جائے گا اور حکومت مریضوں کے مفاد میں اس کے لیے ادائیگیاں جاری رکھے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ایس سی پی کے ہموار کام کے لیے 30 ارب روپے سالانہ درکار ہیں تاہم اجلاس نے محکمہ صحت کو ہدایت کی کہ پروگرام کے تحت اور ہسپتالوں کے ساتھ باہمی معاہدوں کے ذریعے مریضوں کو معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہسپتالوں کی مانیٹرنگ کو مزید مضبوط بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایس سی پی کو پچھلے سال منظور کیے گئے یونیورسل ہیلتھ کوریج ایکٹ کے تحت تحفظ حاصل تھا اور اسے تبدیل، معطل یا بند نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اسمبلی اسے واپس کردے۔
دوسری جانب پشاور کے بڑے تین ہسپتالوں میں مریضوں نے بڑی سرجریوں کی صورت میں اپنی باریوں میں طویل تاخیر کی شکایت کی۔
ٹانک سے تعلق رکھنے والے المان خان نے بتایا کہ اس کے بیٹے کو اینٹسٹائن کی تکلیف تھی اور ڈاکٹر نے کے ٹی ایچ ہسپتال میں اپریشن کیلئے چارمہینے کاوقت دیا جو کہ ہم نے مجبور اس اپریشن کو ستر ہزار روپے پر کیا اور بیٹا آج تندرست ہے لیکن قرض کے پیسے ابھی تک باقی ہیں۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ایک ڈاکٹر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ وہ مہینے میں درجنوں افراد کے بڑے بڑے آپریشن صحت کارڈ پر کرتے ہیں اور وہ اس مریض کو پہلے لاتے ہیں جس کا کیس سنجیدہ ہو اور جلد سرجری کی ضرورت ہو.
ان کے بقول رش ذیادہ ہے تو مجبوراً مہینوں کا وقت دینا پڑتا ہے اور کچھ ایسے مریض بھی اتے ہیں جو دوردراز علاقوں کے ہوتے ہیں اور وقت کیلئے انتظار نہیں کرسکتے یا سفر نہیں کرسکتے وہ ہم سے پرائیویٹ کراتے ہیں اور ہماری خواہش ہوتی ہے کہ کم سے کم چارج لئے جائیں.