‘پالتو کتے انسانی فضلہ منہ میں اٹھائے ہمارے سامنے گزرتے ہیں’
جلال محسود
ڈیرہ اسماعیل خان میں ہسپتالوں کے باہر اور دیگر جگہوں پر طبی فضلہ پھینکنے کی وجہ سے مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے جبکہ اس سے ایڈز اور یرقان سیمت دیگر وبائی امراض پھینلے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی شہزور خان کے مطابق ان کے دکان کے سامنے روازنہ کی بنیاد پر ہسپتال کا طبی فضلہ پھینکا جاتا ہے جس میں پالتو کتے اور چرند پرند انسانی اعضاء کے ضائع شدہ حصے ڈھونڈتے ہیں جبکہ بدبو کی وجہ سے لوگ ان کے دکان کے دکان کا رخ نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے ان کے کاروبار پر منفی اثر پڑا ہے۔
ان کے بقول اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پالتو کتے طبی فضلے میں پڑی انسانی اعضاء کو منہ میں اٹھائے ان کی دکان کے سامنے سے گرزتے ہیں جبکہ کبھی کبھار وہ گندگی وہی پر ہی چھوڑ دیتے ہیں جو کہ پریشانی کا سبب بنتی ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر ادریس بیٹنی کا کہنا ہے کہ گلیوں اور چوراہوں پر طبی فضلہ پڑا رہنا جان لیوا اور مخلتف امراض کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہسپتال میں بیک وقت مخلتف قسم کے امراض میں مبتلا مریض آتے ہیں جس میں ایڈز، یرقان اور ٹی بی سمیت کئی ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جو کہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتی ہے، ایسے میں استعمال شدہ سرنجز یا مریض سے دوران آپریشن نکالا جانے والا عضو سر عام پھینکنا بہت ہی نقصاندہ عمل ہے۔
تفصیلات کے مطابق ضلع کے بڑے ہسپتالوں کے باہر روزانہ کی بنیاد پر استعمال شدہ سرنجز، ڈرییپس، یورین بیگز اور دیگر استعمال شدہ فضلہ جات کھلے عام پھینکے جا رہے ہیں اور ہسپتالوں میں استعمال شدہ سامان اور فضلہ جات طبی قواعد و ضوابط کے تحت ٹھکانے لگانے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جبکہ ہسپتالوں میں بھی گندگی کو تلف کرنے کا نظام موجود نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق ہسپتالوں کے باہر اور شہر کے مختلف چورہواں پر پڑے طبی فضلہ کو کباڑی اٹھا کر بڑے کباڑیوں پر بھیجتے ہیں جس میں متعدد چیزوں کو دوبارہ کار آمد بنایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق ایک سرکاری ہسپتال سے روزانہ کی بنیاد پر چار کلو گرام فی بیڈ جبکہ پرائیوٹ ہسپتالوں میں دو کلو گرام تک طبی فضلہ نکلتا ہے جن کو ٹھکانے لگانے کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں طریقہ کار اور قانون موجود ہے تاہم ڈیرہ اسماعیل خان اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
واضح رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 30 سے زائد سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز ہوتے ہیں تاہم صرف دو ہسپتالوں ( مفتی محمود ہسپتال، خیبر ہسپتال) میں طبی فضلے کو تلف کرنے کا نظام موجود ہے جبکہ باقی ہسپتالوں میں نظام نہ ہونے کی وجہ سے فضلہ جات کو ٹھیک طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرخ جمیل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شہر سے تقریبا 7 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقعہ مفتی محمود ٹیچنگ ہسپتال میں فضلہ تلف کرنے کا پلانٹ موجود ہے مگر وہاں تک فضلہ لے جانے کے لئے ان کے پاس کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے گندگی کو چوراہوں یا کہیں سائڈ پر لگا لیا جاتا تھا مگر اب جلد ہی فضلہ اٹھانے کے لئے چھوٹے چھوٹے گاڑیاں ہسپتال پہنچ جائیں گی جس کے ذریعہ وہ طبی فضلہ کو مفتی محمود ہسپتال لے جاکر وہاں محفوظ طریقے سے تلف کریں گے۔
دوسری جانب صحت کے شعبہ سے وابستہ عبدالرحمان وزیر نے بتایا کہ ہم نے خیبر ہسپتال میں طبی فضلہ کو تلف کرنے کے لئے انسینی ریٹر مشین لگائی ہے جبکہ ان کے بقول ہم نے دیگر ہسپتالوں کو بھی یہ آفر دی ہے کہ وہ اپنا طبی فضلہ یہاں لا کر محفوظ طریقے سے تلف کر لیا کریں تاہم کوئی بھی طبی فضلہ لانے کو تیار نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سر عام طبی فضلہ پھینکنے والوں کے خلاف کارروائی عمل لائے اور انہیں اپنے ہسپتالوں میں انسینی ریٹر لگانے کا حکم دے۔