صحتلائف سٹائل

پاکستان سے افغانستان درآمد کی جانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھ گئی

شاہین آفریدی

پاکستان افغانستان کو چاول اور دیگر اشیائے خوردونوش کے بعد ادویات ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار دیا جاتا ہے تاہم ادوایات کی تجارت سے وابستہ افراد کے مطابق ڈالر کی حالیہ قیمت میں مسلسل اضافہ اور کابل، اسلام آباد کی غیر یقنی تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان سے افغانستان ادویات کی درآمدات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

خیبرپختونخوا کا مرکزی شہر پشاور ادویات کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی ہے اور یہاں سے ادویات اور خام مال بھی افغانستان بھیجا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے یہ کاروبار بھی متاثر ہوا ہے جبکہ اس بازار کے بہت سے تاجروں نے افغانستان کو ادویات کی درآمد بھی بند کر دی ہے۔

نمک منڈی میں گزشتہ دس سالوں سے ادویات کے کاروبار سے وابستہ عادل سرفراز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث ان کا کاروبار 80 فیصد تک متاثر ہوا ہے جبکہ اس کے علاوہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ بھی عوام کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔

عادل سرفراز نے کہا "یہ ادویات انسانی جانوں کو بچانے کے لیے قانونی حیثیت رکھتی ہیں اور آسانی سے افغانستان میں درآمد کی جاتی ہیں، اب ان حالات میں نا توخریدار آتے ہیں اور نا ہی کاروبار ویسے چلتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ہمارے کاروبار پر بہت اثر پڑا ہے۔ انہوں نے ادویہ سازی کے کاروبار کے لیے کوئی واضح ایکسپورٹ پالیسی نہیں بنائی مگر پابندی لگوائی ہے۔ چونکہ ہم بارڈر کے قریب ہے تو ہمارے کاروبار میں 80 فیصد تک کمی آئی ہے”۔

محمد صداقت گزشتہ 15 سال سے ادویات کی دکان میں کام کر رہے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند دنوں میں ذیابیطس، بلڈ پریشر اور دل کے امراض پر قابو پانے کے لیے جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں اور اب بھی بڑھ رہی ہیں۔

محمد صداقت کہتے ہیں ” ایک بیمار جو دوائیاں روٹین میں استعمال کرتا ہے ان کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے، ان ادویات میں بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے امراض کو کنٹرول کرنے والی دوائیاں شامل ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر استعمال کیے جاتے ہیں”۔

دوسری جانب پشاور میں دکانداروں کا کہنا ہے کہ جان بچانے والی ادویات بھی مزید مہنگی ہوگئی ہیں۔

رسول خان پشاور کے ایک میڈیکل سٹور سے دوائیاں خریدنے آئے ہیں، ان کے مطابق وہ بہت محنت کررہے ہیں اور اکثر ڈاکٹروں کی تجویز کردہ تمام ادویات نہیں خرید سکتے۔ ان کے بقول وہ روزانہ 600 روپے کماتے ہیں جبکہ اکثر اوقات ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے اور مریض کی دوائی کے لئے دوسروں سے ادھار پیسے مانگتے ہیں اور انہیں پیسوں پر بمشکل ادویات خریدتے ہیں۔

پاکستان میں دواسازی کا کاروبار اس ملک کی 80 فیصد سے زیادہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں باہر ممالک سے خام مال درآمد کرتی ہیں تاہم روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں اضافے سے ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان 90 ملین ڈالر مالیت کی ادویات ہمسایہ ملک افغانستان کو برآمد کرتا تھا لیکن اب اس میں کمی آئی ہے۔

خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ عطا اللہ شاہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف ادویات کی قیمتوں میں اضافہ اور دوسری طرف اضافی ٹیکسوں میں اضافے کا براہ راست اثر تاجروں اور صارفین پر پڑتا ہے۔

عطا اللہ شاہ کے مطابق زندگی بچانے والی ادویات جیسے کہ بلڈ پریشر کی دوائیں، شوگر کی ادویات اور دیگر ادویات ہر ہفتے مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اگر ایک ہفتے میں ایک گولی کی قیمت 800 روپے ہے تو اگلے ہفتے 950 ہو جائے گی اور پھر 1000 تک پہنچ جائے گی۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سرکاری حکام نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ تاجروں کو سہولیات فراہم کریں گے، اور ایل سیز کی وجہ سے بندر گاہ میں پھنسے ہوئے سامان کو حل کرنے کا راستہ تلاش کریں گے جو کہ تاحال ان کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہے۔ حکومتی کی جانب سے ناقص تجارتی پالیسی کے باعث افغانستان کی مارکیٹوں میں بھارت، ایران اور ترکی ادویہ ساز کمپنیوں نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔

خیبرپختونخوا میں میڈیسن کے کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ ہندوستانی، ایرانی اور ترک ادویات پاکستان کے مقابلے افغانستان میں زیادہ دستیاب ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان کے زیادہ تر مریض دوائی کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں جو ان کی بنسبت کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button