صحت

بریسٹ کینسر: خواتین ہی نہیں مردوں میں بھی آگاہی ضروری ہے

رمل اعجاز

دو سال تک چھاتی کے سرطان سے جنگ لڑنے کے بعد ہار جانے والی قرة العین کی والدہ خود تو رخصت ہو گئیں تاہم قرة العین کو اپنی والدہ کی ہر تکلیف آج بھی یاد ہے۔

قرة العین بتاتی ہیں کہ ٹی وی پر دکھائے جانے والی صورتحال، سڑکوں پر پوسٹر لگانے اور شہری علاقوں میں کمپین چلانے سے سے اصل صورتحال کافی مختلف ہے۔ ایلیٹ کلاس اس اور پڑھے لکھے لوگ اس چیز کو سمجھتے نہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے ان کے لیے کوئی کام نہیں ہو رہا؛ جب مضبوط گھرانوں میں اس طرح کی بیماریاں آتی ہیں ہیں تو وہ لوگ آرام سے باہر کے ملک جا کر اپنا علاج کروا کر صحت یاب ہو کر اپنے گھر کو لوٹ آتے ہیں، ان کو پاکستان کے ہسپتالوں کی ضرورت نہیں پڑتی نہ ہی وہ یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ادھر کے ہسپتالوں کا کیا حال ہے اور ایک عام آدمی کو کو کون کون سی مشکلات درپیش ہیں، چالیس ہزار کا ڈیتھ ریشو (خواتین کے انتقال کی شرح) صرف وہ ہے جو کہ رجسٹرڈ ہے، اس کے علاوہ وہ لاکھوں کی تعداد ان کی بھی ہو گی ابھی جو لاعلمی کی موت ماری جاتی ہیں، جہاں تک بات کوہاٹ کی ہے تو یہاں پر کوئی بھی ”پنک کیمپین” دیکھنے کو نہیں ملتی، ”میری والدہ کا علاج سی ایم ایچ راولپنڈی سے ہوا تھا اور ہم ان کے علاج سے مطمئن تھے باقی اللہ کی مرضی تھی اور ان کا وقت پورا تھا، مریض کو بیماری کی حالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر لے کر جانا آنا کسی جدوجہد سے کم نہیں۔”

قرةالعین نے بتایا ”میری امی کے انتقال کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ ہم اس پر کام کر سکیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس بیماری کو ہم نے سٹگماٹائز کر دیا ہے، ہمیں اس پر بات کرتے ہوئے شرم آنے لگتی ہے لیکن یہ بیماری اور اس کا علاج اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ شوگر، بلڈپریشر اور دل کے امراض کا ہے۔”

قرةالعین کے مطابق ان کی امی کے انتقال سے دو دن قبل ان کی والدہ کی طبیعت بہت ناساز تھی جس کی وجہ سے وہ راولپنڈی تک کا سفر نہیں کر سکتی تھیں، ”کوہاٹ میں کوئی ایسا سنٹر کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جہاں پر آپ مریض کو لے جا سکیں اور وہ سکون سے آخری لمحات وہاں پر بسر کر سکے، جہاں پر امداد مل سکے جبکہ لاہور میں ایسے سنٹرز موجود ہیں جہاں پر کینسر پیشنٹس کو ان کے آخری لمحات میں منتقل کر دیا جاتا ہے، وہاں پر ان کا خیال رکھا جاتا ہے، ان کو حوصلہ دیا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر ان کو اہمیت دی جاتی ہے ہے جس کی اس بیماری سے لڑتے ہوئے مریض کو سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، صرف چھاتی کے سرطان کی نہیں بلکہ پاکستان میں تمام کینسر کی اقسام کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے جس پر ہمیں غور و فکر کرنے کی شدید ضرورت ہے، ہم بیماریوں کو روک نہیں سکتے لیکن ہم ان کا بہتر علاج ضرور مہیا کر سکتے ہیں تاکہ قیمتی جانیں بچ سکیں، گھر بکھرنے سے بچ سکیں۔”

مردوں میں آگاہی

ان کا کہنا تھا کہ چھاتی کا سرطان خواتین کے جسم کے پوشیدہ حصہ کو نشانہ بناتا ہے جس کے باعث وہ اکثر و بیشتر شرم اور حیا کی وجہ سے اپنی ابتدائی تکلیف بتانے سے شرماتی ہیں، یہ خواتین اگر اپنے مرد کو بتا بھی دیں تو ان کا رویہ انتہائی سخت ہونے کی وجہ سے اس کا علاج ہی شروع نہیں ہو سکتا، اس کینسر کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ ہم عورتوں کے ساتھ ساتھ ساتھ مردوں کو بھی آگاہ کریں کیونکہ ان کے سہارے کے بغیر عورتیں اپنا علاج کروانے سے رہیں۔

فیمیل ان کالوجسٹ کی غیرموجودگی

اس حوالے سے نرسنگ کے شعبے سے وابستہ گلِ حنا کا کہنا تھا کہ جتنی بھی لڑکیاں میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لیتی ہیں، گائناکالوجسٹ بن کر باہر نکلتی ہیں، ہمارے ہاں وہ حال ہے کہ اینٹ اٹھاؤ تو نیچے سے ایک گائناکالوجسٹ نکلتی ہے، ”میرا سوال یہ ہے کہ یہ آنکالوجی کی طرف کیوں نہیں آتیں، ایک عورت کے لیے یہی بہت بڑی اذیت کی بات ہوتی ہے کہ اس کا یہ علاج مرد کرے گا، آج کل کئی خواتین نے اس کا علاج شروع کر دیا ہے تاہم وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں، خواتین کو اس تعلیم کی جانب راغب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔

ہسپتال میں سائیکالوجسٹ کی غیرموجودگی

انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں ذہنی بیماریوں کو اتنی توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے مریض شدید بیماری سے لڑتے لڑتے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ ان کے علاج میں خلل پیدا کرتا ہے، سائیکلاجیکل کنڈیشن پر کام کرنا بے حد ضروری ہے، مریض کو یہ سمجھانا کہ اس کا علاج ہو رہا ہے اور وہ یہ لڑائی لڑ لے گا، یہ اعتماد بعد میں کینسر کے خلاف لڑائی میں جیت دلاتا ہے، کیمو تھراپی کے سائیڈ ایفکٹس میں سے ایک ڈپریشن ہے اور جس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ سمجھتی ہوں کہ سائیکالوجسٹ کا ہر اس ہسپتال میں ہونا لازمی ہے جہاں پر ہم کینسر کا علاج کرواتے ہیں، بالوں کا جھڑنا، جسم میں تیز دواﺅں کا بھرنا ان سب سے نپٹنا اور سب سے بڑھ کر جو کینسر کا نام انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے اس سے بچنے کے لیے مینٹل ہیلتھ پر کام بہت ضروری ہے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button