پیناڈول مہنگی اور غائب کیوں ہو گئی ہے؟
محمد فہیم
پشاور کی مارکیٹ میں اس وقت اگر آپ پیناڈول خریدنے جائیں گے تو آپ کو ایک ”پلتے” سے زیادہ میسر نہیں آئیں گی اگر آپ کا تعلق میڈیسن سٹور والے کے ساتھ اچھا ہے تو شاید آپ کو دو ”پلتے” مل جائیں تاہم اس کی قیمت مارکیٹ میں میسر پیناڈال کی قیمت سے زیادہ ہو گی۔ پیناڈول کی ایک اور دوائی پیناڈول ایکسٹینڈ جو مارکیٹ میں میسر ہے اس کی قیمت اس سے زیادہ ہے تاہم شہری اس نام سے انجان ہونے کی وجہ سے اس کی خریداری میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔
سر اور جسم درد کی یہ گولی، پیناڈول، کے مہنگے ہونے کی وجہ دراصل کمپنی کی جانب سے اس کی تیاری روک دینا ہے۔ ادویہ ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی بار بار درخواست کی ہے اور اسے ہر بار وفاقی حکومت نے مسترد کیا ہے۔
حکومت کے مطابق عمران خان کے دور میں یہ ادویات 300 فیصد سے زائد مہنگی کر دی گئی ہیں مزید ان کی مہنگائی کی گنجائش نہیں جبکہ ادویہ ساز کمپنیاں کہتی ہیں کہ خام مال باہر سے منگوایا جاتا ہے اس لئے ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاﺅ کے باعث ان کی قیمتیں بھی تبدیل ہوتی رہیں گی۔
خیبر پختونخوا میں میڈیسن کی سب سے بڑی مارکیٹ نمک منڈی میں ادویات ڈیلرز نے ادویات کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی، ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور سمیت صوبہ بھر میں بھی بخار سمیت دیگر ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پشاور میں پیناڈول، ایپیوال، باسکوپان، ٹیگرال، ایلپ، ڈیان 35، بروفن اور گیویسکان سیرپ کو بلیک میں مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دیا گیا ہے جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ہول سیل مارکیٹ میں پیناڈول کے فی ”پلتے” کی قیمت جو کہ چند روز قبل 17 روپے تھی وہ 40 سے 50 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح ایپیوال 65 کی بجائے 150 سے 200 میں فروخت ہو رہی ہے، باسکوپان 57 کی بجائے 100، ٹیگرال 50 کی بجائے 100 اور 120، ایلپ 70 کی بجائے 120، ڈیان 400 کی بجائے 700 اور 800، پروفن 80 کی بجائے 90 اور 100 جبکہ گیویسکان 100 کی بجائے 150 اور 160 میں فروخت ہو رہا ہے۔
پشاور میں کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اسلم پرویز کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں کیمسٹ پر تمام ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے تاہم کیمسٹ تیسرا فرد ہے؛ سب سے پہلے ادویات کی تیاری کرنے والی کمپنیاں ہیں اس کے بعد ڈیلرز ہیں اور بعد میں کیمسٹ آتے ہیں، اگر کیمسٹ کو ایک دوائی میسر ہی نہیں ہو گی تو وہ کیسے فروخت کرے گا؟
اسلم پرویز کے مطابق اس وقت ایک ایک کیمسٹ کے پاس بخار کی ادویات کی مانگ 60 سے 70 ڈبوں کی ہے لیکن تیاری کم ہونے کی وجہ سے ڈیلز صرف 5 سے 7 ڈبے ہی فراہم کر رہا ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں غیریقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، ”اگر دیکھا جائے ڈائیجیسک پی کی قیمت ایک ہزار 697 روپے ہے اس میں پیراسٹمول استعمال ہوتی ہے، اس کی ڈریپ نے منظوری دی ہے تاہم مقامی ادویات کی تیاری کی منظوری نہیں دی جا رہی، کورونا کے باعث پیناڈول کی مانگ پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور اب تک اس کا متبادل مارکیٹ میں نہیں ہے، اب اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ پاکستان ادویہ سازی کی صنعت میں دنیا سے بہت پیچھے ہے، پاکستان ادویات کی تیاری تو کرتا ہے تاہم اس کیلئے خام مال باہر سے منگوانا پڑتا ہے، پاکستان کو خام مال سب سے زیادہ سوئٹزرلینڈ اور دوسرے نمبر پر چین سے منگوانا پڑتا ہے جبکہ بھارت دنیا بھر میں خام مال کی فراہمی کی تیسری بڑی منڈی ہے، پاکستان کے پاس خام مال کی تیاری کیلئے نہ تو اس وقت کوئی صورتحال ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسلم پرویز کے مطابق ادویہ کی مانگ میں اضافہ سیلاب کی وجہ سے بھی ہو رہا ہے جبکہ بخار اور جسم درد کی ادویات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے آئندہ چند روز میں یہ بحران مزید بڑھ سکتا ہے، پاکستان میں ادویات کی تیاری کیلئے مقامی کارخانہ داروں کو اجازت اس طرح نہیں دی جا رہی جس طرح بین الاقوامی کمپنیوں کو دی جا رہی ہے پاکستان کی مقامی کمپنیاں دنیا بھر کو ادویات فروخت کرتی ہیں لیکن کیونکہ اس میں توازن نہیں ہے اس وجہ سے بین الاقوامی کمپنیوں کے ہاتھ میں پاکستان کی ادویہ کی صنعت یرغمال ہے۔
خیال رہے کہ مارکیٹ سے پیناڈول غائب ہونے پر گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے، اور چیف جسٹس قیصر رشید خان نے محکمہ صحت کو تین ہفتوں میں پیناڈول کی مارکیٹ میں فراہمی یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دائر کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ متعلقہ حکام تین ہفتوں میں پیناڈول کی مارکیٹ میں دستیابی یقینی بنائیں، مارکیٹ میں دستیابی یقینی نہیں بنائی تو پھر سیکرٹری ہیلتھ اور دیگر اعلی حکام کو طلب کریں گے۔