منکی پاکس کیا ہے اور حکومت اس وباء پر قابو پانے کیلئے کتنی تیار ہے؟
پاکستان میں عوام کا خیال ہے کہ حکومت نے کورونا وباء سے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات اُٹھائے مگر وباء کے بارے میں عوام کو بروقت آگاہی نہ دینے سے ہزاروں جانیں ضائع ہو گئیں لیکن محدود وسائل میں دیگر یورپی ممالک کی طرح جانوں کا ضیاع نہیں ہوا۔
ضلع مردان سے حرا شعيب نے کوویڈ کے دوران حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نئی بیماری منکی پاکس کے کیسز تو سامنے نہیں آئے ہیں مگر اس کے خلاف پیش بندی ہونی چاہئے، "کوویڈ کے پہلے دنوں میں حکومتی اقدامات اچھے نہیں تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ حکومت نے اس وباء پر قابو پا لیا۔”
ایک اور خاتون شگفتہ کا خیال ہے کہ وباؤں پر کنٹرول عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں وباؤں کے دوران عوام کی حالت زار پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوویڈ کے دوران بیشتر افراد بے روزگاری کی وجہ سے فاقوں پر مجبور ہو گئے اور اس حالت میں بھی انہوں نے حکومت کے ساتھ تعاون کر کے سماجی فاصلوں کو برقرار رکھا مگر بدلے میں حکومت نے ان کے ساتھ کوئی مدد نہیں کی۔
لنڈی کوتل سے حضرت علی آفریدی نے کہا کہ کوویڈ تو پوری دنیا کا مسئلہ تھا اور اس دوران حکومت نے جو اقدامات کئے وہ قابل تحسین ہیں، منکی پاکس سے بچاؤ کیلئے حکومت کو چاہئے کہ اس وباء کے بارے میں عوام کو بروقت آگاہ کرے تاکہ وباء پر عوامی سطح پر قابو پایا جائے۔
ملک پرویز آفریدی کا الگ خیال ہے اور کہتے ہیں کہ آج بھی کوویڈ کے کیسسز موجود ہیں اور نہ حکومت کے پاس فوری اقدامات کی کوئی ایسی صلاحیت ہے کہ وہ اس پر قابو پائے مگر عوام کے تعاون اور حکومتی آگاہی مہمات ہی کے ذریعے مسائل حل ہوں گے۔
کورونا وباء کے دوران ہونے والے اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافیوں کا خیال ہے کہ اگلی وباء کیلئے حکومت اور عوام ذہنی طور پر تیار ہیں۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی اسلام گل آفریدی کا کہنا تھا کہ کورونا وباء کے دوران ہیلتھ نظام میں کام تو ہوتا رہتا تھا لیکن عوام میں آگاہی کی تھوڑی کمی تھی جس کی وجہ سے طب عملے کو مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان میں بہت سے ڈاکٹر ضروری وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے، انہوں نے زیادہ قربانیاں دیں باوجود اس کے کہ وسائل کی کمی تھی اور اس دوران انہوں نے مریضوں کا علاج جاری رکھا تھا۔
اسلام گل کا کہنا تھا کہ ہیلتھ سیکٹر کیلئے بہت زیادہ چیلنجز تھے لیکن اب چونکہ منکی پاکس کی وباء کی خبریں آ رہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہی ہے کہ وباء سے پہلے ہیلتھ سیکٹر تیار نہیں رہتا اور جب وباء پھوٹ پڑتی ہے تو تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں لیکن اب چونکہ کوویڈ گزر چکا ہے تو اس کے فائدے موجود ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ عوام اور بالخصوص طلباء میں شعور اجاگر کرنے کیلئے سکولوں کی سطح پر وباؤں سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر بارے آگاہی دینا چاہئے کیونکہ ہمارے کچھ علاقے پہلے ہی سے آفت زدہ رہتے ہیں تو اس میں یہ ایک اچھا کردار ادا کرے گی۔
نئی بیماری منکی پاس کیا ہے؟
ڈاکٹر محمد زبیر فوکل پرسن کوویڈ 19 کا کہنا تھا کہ منکی پاکس ساؤتھ افریقہ میں 1980 میں نمودار ہوا تھا اور اسے چیچک کی بیماری کہا جاتا ہے اور اس کے لئے ویکسین بھی متعارف ہوئی تھی، اس نام سے لگ رہا ہے کہ بندروں سے یہ بیماری لگتی ہے لیکن یہ دراصل بڑے چوہوں سے لگتی ہے، جب کسی انسان کو لگتی ہے تو اس کی تھوک سے یہ وائرس پھیلتا ہے، کورونا اور اس منکی پاکس کے وائرس کے جسم مختلف ہیں اور یہ چھوٹے بڑے ان بندوں کو لگتا ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مردان میں ایک کیس رپورٹ ہوا تھا لیکن وہ منکی پاکس نہیں تھا بلکہ چکن پاکس تھا، یہ وائرس ہے اور یہ وائرل انفیکشن ہے اور ڈبلیو ایچ او نے اس کے لئے ویکسین کا انتظام کیا تھا، یہ دو ڈوز میں ہوتی ہے، اگر کوئی کیس رپورٹ ہو جائے تو وہاں پر ویکسین کی موجودگی یقینی بنائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال منکی پاکس کے مریض یہاں پر رپورٹ نہیں ہوئے لیکن ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو اس کی کچھ ویکسین فراہم کی ہیں۔