شاہین آفریدی
خیبر پختونخوا میں پولیو مہم کے دوسرے روز شمالی وزیرستان میں پولیو ٹیم پر حملہ، ابتدائی معلومات کے مطابق حملے کے نتیجے میں ایک پولیو ورکر اور دو پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا ہے۔ اس واقعے کی مزید تفصیلات کے لئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ممکن نا ہو سکا جبکہ انسداد پولیو کے ادارے نے قبل از وقت اس واقعہ پر بات کرنے سے گریز کیا۔
شمالی وزیرستان میں پولیو ٹیم پر حملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پیر سے خصوصی پولیو مہم کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ روز شمالی وزیرستان سے پولیو کا نیا کیس سامنے آیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں پولیو مہم جاری
خیبر پختونخوا کے آٹھ ضلعوں میں خصوصی پولیو مہم کا آج دوسرا روز ہے۔ اس مہم میں صوبے بھر کے 25 لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔
یہ مہم بنوں، لکی مروت، شمالی وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، جنوبی وزیرستان، پشاور اور خیبر میں چلائی جائے گی جبکہ نوشہرہ، مردان، چارسدہ، مہمند، بونیر، صوابی، کرم سنٹرل، لوئر اور اپر، مہمند، باجوڑ، ہنگو، ہری پور، مانسہرہ، مالاکنڈ، دیر لوئر، دیر اپر، چترال لوئر اور اپر میں افغانستان کے ساتھ سرحد پر افغان مہاجرین کے کیمپ اور یونین کونسلز میں جزوی مہم چلائی جائے گی۔
ایمرجنسی آپریشن مرکز خیبر پختونخوا کے کوآرڈینٹر ذیشان خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں کے لئے مخصوص حکمت عملی کے تحت 25 پوائنٹس بنائے ہیں جہاں ہر عمر کے لوگوں کو ویکسینٹ کیا جاتا ہے۔
ذیشان خان نے بتایا "افغانستان کے ساتھ سرحد پر 5 فارمل کراسنگ پوائنٹس ہیں جو شمالی اور جنوبی وزیرستان، کرم، خیبر اور چترال پر بنائے گئے ہیں تاکہ پولیو وائرس کا مکمل طور پر سدباب کیا جا سکے۔”
اس خصوصی مہم میں پولیو سے متاثرہ یا زیادہ خطرناک علاقوں کے علاوہ افغان مہاجر کیمپوں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ایمرجنسی آپریشن مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر کے مختلف مہاجرین کیمپوں میں 2 لاکھ 14 ہزار سے زائد 5 سال سے کمر عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے جائیں گے۔
پشاور کے تاج آباد افغان مہاجر کیمپ میں کام کرنے والی رشیدہ بی بی گزشتہ پانچ سالوں سے ان کیمپوں میں بطور ویکسینٹر کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کے برعکس افغان مہاجرین میں پولیو کے قطروں سے انکار کی شرح بڑی حد تک کم ہے، اگر کوئی شخص پولیو کے قطروں سے شکوک و شہبات رکھتا بھی ہو تو بڑی آسانی سے راضی ہو جاتے ہیں۔
رشیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ "ان افغان مہاجر کیمپوں سب سے بڑی مشکل یہاں بچوں کی تعداد میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، یہ گھرانے مسلسل سفر کرتے ہیں، اس پولیو مہم میں 450 سے زائد ایسے بچے ہیں جو پہلے ہماری فہرست میں موجود نہیں تھے، ان میں سے زیادہ تر افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد سے آئے ہیں، ان حالات میں بچے پولیو کے قطروں سے محروم ہو سکتے ہیں جو اس پروگرام کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔”
وزیر اعلیٰ محمود خان نے وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے ہمراہ جمعہ کو پولیس سروسز ہسپتال پشاور میں صوبے میں انسداد پولیو مہم کے جون کے راؤنڈ کا آغاز کیا اور بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے۔
کے پی کے سیکرٹری صحت عامر سلطان ترین، ایڈیشنل سیکرٹری صحت (پولیو) اور ایمرجنسی آپریشن سنٹر (ای او سی) کے کوآرڈینیٹر آصف رحیم اور محکمہ صحت کے متعلقہ حکام موجود تھے۔
سیکرٹری صحت عامر سلطان ترین نے کہا کہ شمالی وزیرستان سے پولیو کے حالیہ کیسز بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے افسوسناک ہے۔ سیکرٹری صحت عامر سلطان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ "کے پی میں یہ کیسز 21 ماہ کے طویل وقفے کے بعد سامنے آئے ہیں، جو ان تمام محنت اور کوششوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو اسے اتنے لمبے عرصے تک پولیو سے پاک رکھنے کے لیے کی گئیں۔”
ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ہنگامی ویکسینیشن مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ بنوں، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں وائرس پر قابو پایا جاسکے اور ملک کے دوسرے حصوں میں یہ وائرس نا پھیلے۔
سال 2022 میں پاکستان سے گیارہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ تمام تر کیسز قبائیلی علاقہ شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوئے ہیں، انسداد پولیو ادارے کے مطابق متاثرہ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلوائے گئے یا ان کے والدین انکاری تھے۔