صحت

شدید گرمی سے بچے بیمار، پشاور کے ہسپتالوں میں بیڈز کم پڑ گئے

شاہد خان

خیبر پختونخوا میں گرمی کی شدید لہر، بچوں میں ٹائیفائیڈ، خسرہ، ہیضے، معدے اور پیٹ کی دوسری بیماریاں پھیلنے لگیں، پشاور کے تین بڑے تدریسی ہسپتالوں میں روزانہ مجموعی طورپر اوسطاً 50 سے زائد بچوں لایا جا رہا ہے جس کے باعث ہسپتالوں میں بیڈز کم پڑنے لگے ہیں۔ بچوں میں گرمی کے باعث پھیلنے والے امراض کی وجہ سے نہ صرف ہسپتال انتظامیہ کو مشکلات درپیش ہیں بلکہ والدین بھی ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔

اس وقت خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور بچوں کے وارڈ ز بھر گئے ہیں۔ وارڈز میں بیڈز کم اور مریض زیادہ ہیں اس لئے ایک بیڈ پر 2 سے 3 مریضوں کو رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں، نرسوں اور والدین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

بچوں کو بیماری کی وجہ سے دیگر اضلاع سے پشاور کے ہسپتال لانے والے والدین نے بھی بیڈز کی کمی کی شکایت کی، والدین کے مطابق ان کے اضلاع میں قائم ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے اس لئے وہاں سے بچوں کو پشاور ریفر کیا جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوآرٹرز اور تحصیل کی سطح پر موجود ہسپتالوں میں بھی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے مجبوراً بچوں کو پشاور کے ہسپتالوں میں لاتے ہیں لیکن یہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ ہسپتال میں خالی بیڈ ہی نہیں ہے۔

والدین کے مطابق موجودہ حکومت کی 8 سالہ صحت ایمرجنسی کے باوجود اضلاع اور تحصیل لیول کے ہسپتالوں کی حالت ابتر ہے، بعض ہسپتالوں میں تو سینئر ڈاکٹرز ڈیوٹی کے لئے بھی موجود نہیں ہوتے۔

ڈاکٹروں کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے ہسپتال میں بچوں کا رش لگا ہوا ہے، بیشتر بچوں کو ٹائیفائیڈ، ہیضے اور پیٹ کی بیماریوں کی شکایات ہیں۔ مذکورہ بیماریاں پھیلنے کی بڑی وجہ والدین کی جانب سے بے احتیاطی بھی ہے۔ بچوں کے پیٹ خراب ہونے پر فوری طور پر بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بجائے گھریلو ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے معمولی بیماری بھی پیچیدہ ہو جاتی ہے، شدید گرمی کے موسم میں بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے معیاری خوراک اور صاف پانی پلایا جائے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ایمرجنسی وارڈ میں ایک بیڈ پر زیادہ بچے رکھنے کے حوالے سے ایل آر ایچ پشاور کے ترجمان محمد عاصم نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایل آر ایچ صوبے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اور یہاں پر سہولیات بھی زیادہ ہیں اس لئے ضم شدہ قبائلی اضلاع سمیت صوبہ بھر سے بچوں کو لایا جا رہا ہے، یہ بات درست ہے کہ ایمرجنسی وارڈز میں ایک بیڈ پر دو سے تین بچوں کو رکھا گیا ہے۔

ایل آر ایچ کے ترجمان محمد عاصم کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں ہر قسم کی سہولت موجود ہے اس لئے ہسپتال انتظامیہ کی ہدایت پر ڈاکٹرز بچوں کو دوسرے ہسپتال ریفر کرنے کی بجائے یہیں پر داخل کر کے علاج کر رہے ہیں۔

ہسپتال انتظامیہ نے واضح کیا کہ انہیں بچوں کی صحت عزیز ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو دیگر ہسپتال ریفر کرنے کے دوران نہ صرف بچے کی بیماری مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے بلکہ خدانخواستہ بچے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button