پولیو وائرس کی منتقلی: پاکستان پر سفری پابندیوں میں 3 ماہ کی توسیع
شاہین آفریدی
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے افریقی ملک مالاوی میں پولیو وائرس کی ‘منتقلی’ کے لئے پاکستان پر سفری پابندیوں میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی۔
گزشتہ سال نومبر میں افریقی ملک مالاوی میں پولیو وائرس کا مثبت کیس رپورٹ ہونے کے بعد پاکستان پر سفری پابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ماہرین صحت کے مطابق مالاوی میں پولیو وائرس کے نمونے پاکستان اور افغانستان بلاک سے تعلق رکھتے ہیں اور ممکنہ طور پر پولیو وائرس یہاں سے منتقل ہوا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 2016 کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی افریقی ملک سے پولیو وائرس کا تازہ کیس رپورٹ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر پولیو وائرس کے پھیلنے کے خدشے کے باعث پاکستان پر یہ تازہ سفری پابندی عائد کی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افریقی ملک مالاوی میں 3 سالہ بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی اور اسی وائرس کے نمونے سال 2019 میں پاکستان میں پائے گئے تھے۔
ڈبلیو ایچ او کے صحت کمیٹی کے مطابق پوليو کيس کي تصديق ہونے کے بعد مالاوی اور چار ہمسایہ ممالک میں خصوصی پلان تشکیل دیا گیا ہے جو ان ممالک میں سپیشل پولیو کمپین چلانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ پولیو وائرس WPV1 کب او کیسے منتقل ہوا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں مسلسل پولیو وائرس کے مثبت ماحولیاتی نمونے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں اندرونی ملک اور افغانستان سے بڑی تعداد میں آنے والے لوگوں کی آمد و رفت، افغانستان میں بدلتی ہوئی حکومت کے باعث بڑی تعداد میں غیر ویکسین شدہ بچے اور بعض علاقوں میں پولیو کے قطروں سے انکاری لوگ، وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور جنوبی مشرقی افغانستان کے بعض علاقوں میں پولیو وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے انسداد پولیو ادارے ایمرجنسی آپریشن مرکز کے سربراہ عبدالباسط نے بتایا کہ یہ وائرس پاکستان اور افغانستان کے علاوہ دنیا کے 29 ممالک میں ٹائپ 1، 2 اور اب 3 کی شکل میں پھیل چکا ہے۔ اس وائرس کو ختم کرنے کے لئے ہر بچے کو اور ملک سے باہر جانے والے ہر فرد کو لازمی ویکسین کرنا ہو گا کیونکہ پولیو وائرس کی کوئی سرحد نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "پاکستان اور افغانستان سے بیک وقت پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی اور قومی سطح کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے مستقل ٹرانزٹ پوائنٹس اور کراس بارڈر ویکسینیشن سائٹس پر تمام عمر کے افراد کو ویکسینیشن کی ضرورت کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ ہم اپنا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں اور اس خطے کو ہمیشہ کے لیے پولیو سے پاک بنانے کے لیے کافی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔”
اس سے پہلے بھی عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سال 2014 کو ملک میں پولیو وائرس کے مسلسل کیسسز آنے کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کی گئی تھیں جس کے بعد حج عمرہ یا بیرون ملک جانے پر ہر شہری کو پولیو کے قطرے پلوانا لازمی قرار دیا گیا اور محکمہ صحت کی جانب سے اس کی باقاعدہ سرٹیفیکشن بھی شائع کی گئی۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا ایمرجنسی آپریشن سنٹر کے ڈپٹی کوارڈینیٹر زمین خان مہمند کا کہنا ہے کہ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں صوبے کے جنوبی اضلاع ٹانک اور بنوں سے پولیو وائرس کے مثبت ماحولیاتی نمونے رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان اضلاع میں پولیو کے قطروں سے انکاری لوگ اور دوسرے علاقوں سے یہاں لوگوں کی منتقلی ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
زمین خان مہمند کا کہنا ہے کہ ”ایسی صورتحال میں ہم نے پورے صوبے میں دسمبر 2021 سے 3 خصوصی پولیو کمپین چلائی ہیں۔ ان پولیو مہمات کو OBR يعنی آوٹ بریک ریسپانس کمپین کا نام دیا گیا جو کسی بھی علاقے میں پولیو وائرس کی نشاندہی کے فوراً بعد چلائی جاتی ہے۔ یہ کمپینز صوبے کے چھ جنوبی اضلاع بنوں، ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت، شمالی اور جنوبی وزیریستان میں چلائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے افغانستان کے ساتھ منسلک سرحدی علاقوں کی 85 یونین کونسلوں اور افغان کیمپوں میں بھی او بی آر کمپینز چلائی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے میعار کے مطابق تکنیکی ماہرین نے ان علاقوں کا جائزہ لیا ہے جس کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے پولیو مہمات چلائی جا چکی ہیں تاکہ پولیو وائرس کا تدارک کیا جائے اور مزید پابندیوں کا سامنا نا کرنا پڑے۔”
لیکن ڈبلیو ایچ او کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے اور کیسز انتہائی کم درجے تک رپورٹ ہوئے ہیں۔ پاکستان سے جنوری 2021 میں آخری مثبت پولیو کیس رپورٹ ہوا تھا جبکہ افغانستان میں اسی سال 4 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ سال 2022 میں پاکستان سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا جبکہ افغانستان میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جو کہ عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لئے کی گئی کاوشوں کی ایک زندہ مثال ہے۔