صحت

”آپ کے پاس افغان کارڈ ہے نا کوئی اور، آپ کا علاج نہیں ہو سکتا”

حنا خالد

گذشتہ برس افغانستان میں نئی حکومت آنے کے بعد بیشتر افغان شہری بغیر قانونی دستاویزات کے ادھر پاکستان آئے ہیں۔ یہاں وہ طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہیں، علاج معالجے کی مشکل جن میں سے ایک ہے، کیونکہ قانونی دستاویزات کے بغیر یہ افغان پناہ گزین خیبر پختونخوا یا ملک کے دیگر حصوں کے سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج معالجہ نہیں کروا سکتے۔

کچھ ماہ قبل اسی قسم کے حالات سے نوشہرہ میں مقیم تیس سالہ فاطمہ اور ان کا خاندان بھی گزرا ہے۔ وہ اور ان کا خاندان غیرقانونی طور پر یہاں آئے ہیں اور اکوڑہ خٹک میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں فاطمہ نے بتایا کہ ان کے گھرانے کی ایک خاتون امید سے تھیں، ڈیلیوری کے وقت اسے جب سرکاری ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں ان سے پی او آر یا افغان سٹیزن کارڈ اور یا پھر پاسپورٹ مانگا گیا جو ان کے پاس نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہ نجی ہسپتال جانے پر مجبور ہوئے، ”عمومی طور پر تو ہمیں یہ مشکلات درپیش ہیں میری بہن کہ ہم جب بھی سرکاری ہسپتال جاتے ہیں تو وہاں ہم سے وہ کارڈ مانگتے ہیں جبکہ اس وقت ہمارے پاس کارڈز نہیں ہیں، جس طرح آپ کے پاکستانی جب ہسپتال جاتے ہیں تو ان سے ان کا شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے جس کے بعد پرچی بنتی ہے اور داخلہ ملتا ہے، پاکستانی کارڈ تو ہمارے پاس ہے نہیں، پاسپورٹ ہمارا نہیں، افغان کارڈ اگر بنانا چاہیں تو وہ اس وقت بن ہی نہیں رہے، وہاں وہ بتاتے ہیں کہ صبر کریں اس ماہ نہیں اگلے ماہ بننا شروع ہو جائیں گے، ایک تو یہ مسئلہ ہے، دوسرے وہ (ہسپتال والے) ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کے مریض کو یہاں داخلہ نہیں مل سکتا کیونکہ آپ کے پاس کارڈ نہیں ہے، تو یہ ساری مشکلات ہمیں درپیش ہیں، جن کا بس چلتا ہے وہ نجی ہسپتال جا کر اپنا علاج کروا لیتے ہیں، اور جن کی استطاعت نہیں وہ وہاں پڑے پڑے رلتے رہتے ہیں۔”

خیبر پختونخوا کے بڑے تدریسی ہسپتالوں میں نا صرف افغان شہریوں کو علاج کے وقت اپنے کاغذات (کارڈ وغیرہ) لازمی دکھانا ہوتے ہیں بلکہ یہ شرط پاکستانی شہریوں کے لئے بھی رکھی گئی ہے۔ تاہم صوبے کے سب بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق ایمرجنسی کی صورت میں نرمی برتی جاتی ہے کیونکہ انسانی جان سب سے اہم ہے، ”جس طرح پاکستانیوں کا یہاں علاج کیا جاتا ہے اسی طرح افغان پناہ گزینوں کو بھی علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، ایمرجنسی میں اگر کسی افغان مہاجر کے پاس کوئی بھی دستاویزات نا ہوں، اس کا علاج کیا جاتا ہے، لیکن جہاں تک او پی ڈی کا تعلق ہے تو وہاں یہ ضروری ہے کہ ان کے پاس کارڈ ہو یا پاسپورٹ یا اس طرح کی کوئی اور دستاویز، تو اس پے ان کی پرچی بنتی ہے، اور پھر اگر داخلے کی ضرورت ہو تو پھر اسے دیگر سہولیات دی جاتی ہیں، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی کے پاس کچھ بھی نا ہو، نا کارڈ ہو نا پاسپورٹ اور نا کوئی اور ڈاکیومنٹ لیکن پھر بھی ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ کوئی افغان شہری آیا ہو اور اس کے پاس کوئی ایک دستاویز بھی نا ہو اور ہم نے اسے واپس کیا ہو کہ آپ کا علاج نہیں ہو سکتا، نہیں، ہم اس کے نام سےپرچی بھی بناتے ہیں، پھر اسے داخلہ بھی دیتے ہیں، لیکن پھر بھی ہم ان سے کہتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو وہ اپنی کوئی ایک دستاویز لے کر آئیں تاکہ آئندہ کے لئے ان کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہو سکے۔”

فاطمہ کی طرح کا مسئلہ پشاور میں مقیم افغان پناہ گزیں عابد کو بھی پیش آیا تھا جسے معلومات نا ہونے کی وجہ سے سرکاری ہسپتال سے علاج کیلئے کافی پاپڑ بیلنا پڑے تھے تاہم اس کے باوجود اس کا علاج نہیں ہو سکا تھا، ”علاج تو ہماری خواہش ہے کہ سرکاری ہسپتال سے جا کر کروا لیکن وہاں ہمارا علاج کرایا نہیں جاتا اس وجہ سے کہ سرکاری ہسپتالوں میں صحت کارڈ سے علاج کرایا جاتا ہے جو ہمارے پاس نہیں، مہاجر کارڈ نہیں ہے، شناختی کارڈ نہیں ہے اس لئے وہاں ہمیں وہ سہولیات نہیں دی جاتیں جو شناختی کارڈ یا افغان کارڈ والوں کو دی جاتی ہیں، میرے اپنے گھر میں ایک مریض ہے، ٹانسلز کا مریض ہے، سنگین مسئلہ ہے لیکن سرکاری ہسپتال کا قصہ تو آپ کو سنا چکا کہ وہاں وہ ہمیں پرچی نہیں دے رہے تھے تو علاج کیا کرتے، اس وجہ سے نجی ہسپتال جانے پر مجبور ہیں لیکن ہماری مالی حالت بہت کمزور ہے، نجی ہسپتالوں سے علاج کی استطاعت نہیں ہے۔”

او پی ڈی یا ہسپتال میں داخلے کے لئے دستاویزات کی شرط صرف تدریسی ہسپتالوں میں ہے کیونکہ کیٹیگری سی، ڈی اور یا اس طرح کے دیگر سرکاری ہسپتالوں میں پاکستانیوں کی طرح افغانیوں کو بھی کاغذات دکھانے کی کوئی شرط نہیں ہے۔

سول ہسپتال اکوڑہ خٹک کے ایم ایس ڈاکٹر فرمان علی کے مطابق ان مقامی ہسپتالوں میں وہ کسی قسم کے کاغذات کا نہیں پوچھتے اور مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین بھی یہاں آ کر علاج معالجے کی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں، ”آپ اگر یہاں آ کر دیکھ لیں تو روازنہ ادھر او پی ڈی میں اگر تین چار سو مریض اگر آتے ہیں تو ان میں تیس سے چالیس فیصد افغان مہاجرین ہوتے ہیں باقی ساٹھ یا ستر فیصد پاکستانی ہوتے ہیں، ہمارا ایک سنٹرل رجسٹریشن پوائنٹ ہے جہاں ہر بندہ آ کر پرچی بنواتا ہے، ہم ان میں یہ تمیز نہیں کرتے کہ آپ افغانی ہیں یا پاکستانی، پرچی ہر کسی کی بنواتے ہیں اور ڈاکٹر سب کا چیک اپ کرتے ہیں، گورنمنٹ کی جانب سے بھی ہم پر اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے کہ پاکستانیوں کا علاج کریں اور افغانوں کا نا کریں یا انہیں زیادہ دوائی دیں انہیں کم دیں، بلکہ ہماری حکومتی پالیسی بھی یہی ہے کہ یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں یہاں ہمارے پاس رہ رہے ہیں تو ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں، اور ہم کرتے بھی ہیں سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک!”

دوسری جانب فاطمہ اگرچہ معلومات کی عدم دستیابی کو اپنی غلطی قرار دیتی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ شکایت بھی کرتی ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں افغان مہاجرینوں کو علاج کی سہولیات تو دی جاتی ہیں لیکن عملے کا رویہ ان کے ساتھ مناسب نہیں ہوتا ہے۔

گو کہ بڑے ہسپتالوں میں غیررجسٹرڈ افغان علاج کی سہولیات سے محروم ہیں تاہم اس کے باوجود دیگر سرکاری ہسپتالوں میں یہی سہولیات پاکستانی شہریوں کی طرح ان کے لئے بھی مفت دستیاب ہیں تاہم بیشتر افغان اس سہولت سے لاعلم ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button