کورونا ویکسین: کوئی کسی مائع میں چِپ کیسے لگا سکتا ہے؟
کیف آفریدی
عالمی سطح پر جب کورونا وباء سے بچاؤ کی ویکسین تیار ہوئی اور اس کا استعمال شروع ہوا تو دنیا بھر میں لوگ کورونا وائرس کی طرح اس ویکسین کے خلاف بھی طرح طرح کی افواہیں پھیلانے لگے، کوئی کہہ رہا تھا کہ اس ویکسین سے خواتین بانچھ پن کا شکار ہو سکتی ہیں تو کسی نے کہا کہ خواتین کو یہ ویکسین لگوانے سے ان کی داڑھی نکل آتی ہے تو کسی نے کہا کہ حاملہ خواتین کو ویکسین لگوائی تو ان کے بچے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ ایک افواہ یہ بھی پھیلائی گئی کہ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کا یہ منصوبہ ہے اور اس ویکسین کے زریعے سے لوگوں کے بازوؤں میں ایک چِپ لگائی جا رہی ہے جس سے ان کی تمام سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جائے گا۔ اس طرح لوگوں میں اس قسم کی افواہیں پھلیتی گئیں اور لوگ اس پر یقین کرتے رہے۔
ایسے ہی لوگوں میں سے ایک پشاور کے رہاشی محمد باسط بھی ہیں جن کا کہنا تها که مغرب قوتیں اسلامی ممالک کو ہر لحاظ سے کمزور کرنا چاہتی ہیں تو اس طرح ویکسین کے بہانے جسم میں چیپ انسٹال کرنا بھی ایک بہت بڑی چال ہے جس کا مقصد امت مسلمہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے کیونکہ مغربی طاقتو کو یہ ڈر ہے کہ اسلامی ممالک ترقی کے سفر میں ہم سے آگے بڑھ جائیں گے اور یوں پوری دنیا پر ان کو کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات کرتے ہوئے پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے شعبہ انتہائی نگہداشت (آئی سی یو ) کے اسسٹںٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد شہریار اشرف نے کہا کہ عام طور پر جب ویکسین تیار کی جاتی ہے تو اس پر دس سے پندرہ سال لگ سکتے ہیں تاہم یہ کورونا، وائرس کی ایک خاص قسم کی فیملی سے منسلک ہے، دس یا بارہ سال پہلے ایک وائرس تھا جسے مرس (MERS) کہتے تھے، اس کے علاوہ سال دو ہزار دو میں بھی اس وائرس کی کچھ اقسام موجود تھیں، ان پر طب کے ماہرین اور سائنسدانوں نے ریسرچ شروع کی تھ تو اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کرونا ویکیسن کی تیاری میں دس سے بارہ سال لگے ہیں، جب کوئی وائرس یا جرثومہ انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو اس کے خلاف جسم میں مدفعاتی نظام بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی ساری چیزیں بنتی ہیں جن میں انٹی باڈیز بھی شامل ہیں، اور اگر کسی انسان کے جسم میں پہلے سے قوت مدافعت مضبوط ہو تو وائرس اور دیگر جراثیم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
ڈاکٹر اشرف کے مطابق ویکسین آپ کے مدافعتی نظام کو اینٹی باڈیز بنانے پر اکساتی ہے، جو آپ کے جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیم کے خلاف لڑنے میں آپ کے جسم کی مدد کرتی ہیں، ”سائنسدان یہ ویکسین جراثیم بشمول بیکٹیریا اور کورونا وائرس جیسے وائرس سے آپ اور دیگر افراد کی حفاظت کے لیے بناتے ہیں، ہمیں دیگر بیماریوں کے لیے پہلے ہی ویکسین مل رہی ہیں، کوویڈ کی ویکسین لگوانا بھی اہم ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ویکسین کی تیاری ”لاک اینڈ کی” فارمولے پر ہوتی ہے کہ جیسا تالہ ہوتا ہے ویسے ہی اس کے لئے چابی بنی ہوتی ہے۔ طب کے ماہرین اور سائنسدان پہلے وائرس کی ساخت کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد ایک خاص قسم کی ویکسین تیار کی جاتی ہے جس سے قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے اور جسم اپنے اندر موجود وائرس کا مقابلہ کرتا ہے اور وائرس کو پھیلنے سے روکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد شہریار اشرف نے مزید کہا کہ ہمیں ان افواہوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے کیونکہ افواہیں پھیلانا ہم لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے، اس سے پہلے بھی لوگ پولیو اور دوسری حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے بھی ابہام پایا جاتا تھا، لوگوں کو چاہیے کہ آج اس دور جدید میں ان افواہون پر کان نہ دھریں کیونکہ دنیا بہت آگے جا چکی ہے۔
چِپ انسٹال کرنے کی افواہ میں کتنی حقیقت ہے؟
اک انڈین داکٹر کے مطابق ویکسین مختلف اقسام کی اور مختلف شیشیوں میں ہوتی ہیں تو کیا سب میں چِپس ہوتی ہیں؟ کوئی کسی مائع میں چِپ کیسے لگا سکتا ہے؟ یہ سب بے کار باتیں ہیں۔
درایں اثنا سوشل میڈیا پر اس طرح کی افواہیں زور پکڑ گئیں تو بعض لوگوں نے ویڈیو پیغامات کے زریعے ان افواہوں کا مذاق اڑایا اور کہا کہ مشرقی ممالک نے ایسے کیا کارنامے کیے ہیں جو امریکہ اور دوسری طاقتیں ان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں، برصغیر کے لوگوں کو تو صرف چارپائی بننا ہی آتا ہے، کسی نے کہا کہ امریکہ ہم سے کئی سال آگے ہے ترقی کے سفر میں وہ بھلا کیوں ہمارے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اب تک 10 کروڑ 18 لاکھ سے زائد افراد کو کورونا ویکسین کی مکمل ڈورز، 12 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد کو پہلی، یا پھر دوسری ویکسین جبکہ 48 لاکھ 69 ہزار 245 افراد کو بوسٹر ڈور لگائی جا چکی ہے۔ دوسری جانب حکومت وقت نے کرونا وائرس کے تمام تر ایس او پیز کو ختم کر دیا ہے، تاہم کورونا سرٹیفیکیٹ بنانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
کورونا وائرس ایک عالمگیر وباء ہے جو دسمبر دو ہزار انیس میں چین کے صوبے ہوبی کے شہر ووہان میں پھوٹ پڑی اور اس برق رفتاری سے پھیلی کہ چند ہی مہینوں کے بعد گیارہ مارچ دو ہزار بیس کو عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اسے عالمی وبا قرار دے دیا کیونکہ ایک سو نوے ممالک کے مختلف شہروں میں اس وبا نے سر اٹھا لیا تھا، اب تک ساٹھ لاکھ سے زائد لوگ اس وائرس کا شکار ہو کر لقمہ اجل بنے ہیں، پاکستان میں اموات کی تعداد تیس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔