”زچہ بچہ کی جان خطرے میں ہے آپریشن کے پیسے جمع کرائیں”
کائنات علی
‘ڈاکٹر کی جانب سے نارمل ڈیلیوری کی بجائے غیرضروری سیزیرین سیکشن (سی سیکشن جسے عرف عام میں آپریشن کہتے ہیں) کے انتخاب نے میری زندگی کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا اور اس آپریشن نے میری صحت پر نا ختم ہونے والے منفی اثرات مرتب کیے۔’
یہ الفاظ ہیں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی 36 سالہ شبنم ذاکر کے جو تین بچوں کی ماں اور ایک سرکاری ملازم بھی ہیں۔
شبنم ذاکر ان سینکڑوں خواتین میں سے ایک ہیں جن کو ڈاکٹر نے نارمل ڈیلیوری کی بجائے سی سیکشن کا مشورہ دیا اور شبنم ذاکر کے مطابق اس کو بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر نے یہ صرف پیسوں کی خاطر کیا تھا۔
‘یہ سال 2010 کی بات ہے جب میرا پہلا بچہ پیدا ہونے والا تھا اور ڈاکٹر نے مجھے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ ڈیلیوری نارمل ہو گی، لیکن بچے کی پیدائش سے چند ہی روز قبل ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میرا وقت پورا ہو گیا ہے اور اب یہ ڈیلیوری سی سیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے اور میرے شوہر کو آپریشن کے لئے پیسے جمع کرانے کو کہا۔’
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ سی سیکشن کے ذریعے دنیا میں آتا ہے۔
اسی سروے کے مطابق پاکستان میں سی سیکشن ڈیلیوری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو کہ 13-2012 میں %14 سے بڑھ کر 18-2017 میں %22 ہو گئی ہے۔
اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے ایک سرکاری ہسپتال میں بطور میڈیکل آفیسر کام کرنے والی ڈاکٹر اسماء انور نے بتایا کہ کسی بھی ملک میں سی سیکشن کی بڑھتی ہوئی شرح کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ’یا تو زچہ کی صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ مالی فوائد کے لیے سی سیکشن کی شرح میں اضافہ کر رہا ہے یا طبی طور پر غیرضروری طور پر اسے خواتین کی پسند پر انجام دے رہا ہے۔‘
ڈاکٹر اسماء کا بتانا تھا کہ پاکستان میں جہاں کوئی ہسپتال، خواہ وہ سرکاری ہو یا پرائیویٹ، ایک واضح انتخابی سی سیکشن پالیسی نہیں ہے۔
سی سیکشن کے جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرات کے حوالے سے شبنم ذاکر نے کہا کہ پہلے ان کا وزن 60 کلوگرام کے قریب تھا لیکن سی سیکشن کے ایک سال بعد ان کا وزن اب 82 کلوگرام کے قریب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزن بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت بھی اب ان کا ساتھ نہیں دے رہی اور ان کی زندگی میں ڈپریشن اب معمول بن گیا ہے۔
بقول ان کے ذہنی بے سکونی اور نہ ختم ہونے والا ڈپریشن نے ان کی ازدواجی زندگی اور ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے ڈپارٹمنٹ میں بھی ایک دفعہ شوکاز نوٹس جاری ہوا ہے اور شوکاز نوٹس کی سب سے بڑی وجہ ان کا ڈپریشن ہے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی پچھلے کئی سالوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
سی سیکشن کے حوالے سے ڈاکٹر اسماء کا کہنا تھا کہ سی سیکشن کی اگر طبی طور پر ایک خاتون کو ضرورت ہو تو یہ ٹھیک ہے لیکن یہ طریقہ کار خواتین اور بچوں کی صحت پر قلیل المدتی اور طویل المدتی اثرات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے نبی گل کے مطابق ان کی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور ڈیلیوری میں چند ہی دن ابھی باقی تھے کہ ان کی اہلیہ کو درد شروع ہونے لگا، اورر جب ان کی اہلیہ کو درد محسوس ہونے لگا تو وہ اسے ضلع کرم میں واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال لے کر گئے جہاں موجود ڈاکٹر نے کہا کہ ڈیلیوری کی مدت پوری ہو گئی ہے لہذا اب یہ ڈیلیوری سی سیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
نبی گل نے مزید بتایا کہ چونکہ حمل کے دوران وہ اپنی بیوی کو مسلسل پشاور میں ان کے ایک مخصوص کنسلٹنٹ کو چیک اپ کروانے کے لئے لے کر جاتے تھے اور اس کنسلٹنٹ کے مطابق ڈیلیوری بالکل نارمل ہونی تھی اور کوئی پیچیدگی کا امکان نہیں تھا، ‘لیکن اس کے باوجود بھی گاؤں میں واقع پرائیویٹ ہسپتال میں موجود ڈاکٹر نے مجھے پیسے جمع کرنے کو کہا اور ڈیلیوری آپریشن کے لیئے تیار رہنے کو کہا۔’ نبی گل کے مطابق انہوں نے ڈاکٹر کو آپریشن کرنے سے فوری طور پر روکا اور بیوی کو پشاور لے کر گئے جہاں ان کو اللہ نے بغیر کسی آپریشن کے اولاد کی نعمت سے نوازا۔
مردان کے سب سے بڑے ہسپتال مردان میڈیکل کمپلیکس کے ترجمان ضیاء الاسلام کے مطابق پچھلے 6 ماہ میں صرف مردان میڈیکل کمپلیکس میں 1146 ڈیلیوری کیسز سی سیکشن کے ذریعے جبکہ 9 ہزار کے لگ بھگ نارمل ڈیلیوری کیسز ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ہما سلطان جو کہ پشاور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں پچھلے گیارہ سال سے بطور سینئر نرس کام کرتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی اس گیارہ سالہ نوکری میں بہت ایسے واقعات دیکھے ہیں جب ڈاکٹروں نے صرف پیسوں کی خاطرحاملہ خواتین کو آپریشن کا مشورہ دیا اور ایسے بھی واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ سی سیکشن کے دوران خواتین کی موت واقع ہو گئی۔
ہما سلطان کا کہنا تھا کہ ہر مہینے تقریباً پانچ سے سات کیسز ایسے آتے ہیں جو نارمل ڈیلیوری سے ہو سکتے ہیں لیکن پیسوں کی خاطر چند عناصر ان کو آپریشن کا مشورہ دیتے ہیں اور لوگ بھی کسی اور ڈاکٹر سے مشورہ کئے بغیر آپریشن کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جو موت کو گلے لگانے کے مترداف ہے۔
ان کا مزید بتانا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں پھر بھی کوئی نہ کوئی ڈیٹا موجود ہوتا ہے لیکن پرائیویٹ ہسپتال کبھی بھی اس طرح کی معلومات نہ پاس رکھتے ہیں اور نہ کسی کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔