پشاور: مہنگائی و بے روزگاری کے شکار نئے افغان پناہ گزین کس حال میں ہیں؟
نوریہ بازوان
ایک تو بے گھری اوپر سے بے روزگاری، یہ حال ہے ان بیشتر نئے افغان پناہ گزینوں کا جو حال ہی میں ہجرت کر کے پاکستان آئے ہیں اور یہاں مختلف اضلاع مں مقیم ہیں۔
سات ماہ قبل افغانستان میں نظام کی تبدیلی کے بعد لاکھوں افغانوں نے دیگر ممالک کا رخ کیا جن کی ایک بڑی اکثریت پاکستان بھی آئی ہے تاہم یہاں آ کر ان کے مسائل حل نہیں ہوئے کیونکہ یہاں اپنے لئے روزگار کا بندوبست کرنا ان کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
صوبہ ننگر ہار سے پشاور آئیں سائرہ سلیم دس افراد پر مشتمل اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں۔ سائر کابل کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ تھیں (رپورٹر) تاہم یہاں آنے کے بعد ان کا یہ واحد زریعہ آمدن بھی چِھن چکا ہے۔
”میں نیشنل اور لوکل ریڈیو/ٹیلی وژن کے ساتھ کام کر چکی ہوں، نظام میں تبدیلی کے ساتھ ہم پاکستان آنے پر مجبور ہوئے اور یہاں پر اپنی زندگی کو جاری و ساری رکھا، چمن کے راستے سے آئے، کافی مشکلات تھیں، سفر کے دوران راتیں گزاریں، دن گزارے، اس سے قبل جب وہاں حکومت تبدیل نہیں ہوئی تھی تو والد صاحب کام کرتے تھے، میں بھی کام کرتی تھی تو ہماری گزر بسر ٹھیک ٹھاک ہو رہی تھی، میں جو اپنے خاندان کی سپورٹر ہوں تو ساری فیملی کی کفالت میرے ذمے ہے، گھر میں ہم دس افراد ہیں، جو بڑے ہیں یا چھوٹے ہیں ان کے تعلیمی یا دیگر اخراجات سارے میرے ذمہ ہیں، ادھر جتنے ماہ ہم نے گزارے ہیں تو وہاں جو بچت کی تھی اسی پر یہاں زندگی رواں دواں رکھی ہے، یہاں بھی مشکلات سے دوچار ہیں کیونکہ یہاں بھی کار روزگار کا بندوبست اتنا آسان نہیں ہے۔”
سائرہ اور ان کی طرح دیگر خواتین صحافیوں نے سقوط کابل کے بعد یا تو پاکستان کا رخ کیا ہے اور یا پھر دیگر ممالک گئی ہیں لیکن وہاں پر ان کی پسند کی ملازمت ان کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔
کونڑ سے تعلق رکھنے والے ضیاء الدین سائرہ کی طرح صحافی تو نہیں ہیں تاہم سابق افغان حکومت میں وہ ایک سرکاری ملازم تھے اور نظام کی تبدیلی کے بعد بہتر مستقبل کی تلاش میں پاکستان آئے ہیں اور یہاں (پشاور میں) ایک دکان میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ضیاء الدین کے مطابق ساری فیملی (کی کفالت) ان کے ذمے ہے اس لئے وہ محنت مزدوری کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں اور ایک بہتر مستقبل کے انتظار میں شب و روز بسر کر رہے ہیں: ”جب نظام ٹوٹ گیا تو اس کے ساتھ بے روزگاری اور اقتصادی حالات کافی خراب ہوئے، وہاں جو میری نوکری تھی وہ ہاتھ سے چلی گئی، جاب کرنا ممکن نہیں رہا تھا، پھر میں کوئی ذاتی کام بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میرے پاس پیسہ نہیں تھا بہرحال میں اپنی کوشش کر رہا تھا کیونکہ میں پوری فیملی کا سربراہ ہوں تو ساری ذمہ داریاں میرے سر تھیں، بچوں کی تعلیم، گھر والوں کی پوشاک و خوارک سب کچھ، بہرحال میں پاکستان آنے پر تیار ہوا تو بہت مشکلات تھیں جب میں روانہ ہوا، میرے پاس پاسپورٹ بھی نہیں تھا جو میں آسانی سے آ جاتا لیکن کافی مشکل سے میں سپین بولدک پہنچا، وہاں دو راتیں گزاریں، ایک کمیشن کار نے قندھار کا تذکیرہ بنوا کے دیا سات ہزار افغانی کے عوض، اور سرحد پار پاکستان پہنچا دیا، پھر جب میں آ رہا تھا تو راستے میں بہت مشکلات تھیں، لیکن جیسے تیسے کر کے میں پشاور پہنچ ہی گیا کیونکہ یہاں میرے بہت سارے دوست ہیں، عزیز و اقارب بھی جو مجھے بتا رہے تھے کہ یہاں آ جاؤ، تو میں کافی ساری زبانیں بول سکتا ہوں، یہاں ایک ذاتی کام ہے، ایک فرد کے ساتھ دکان میں ہوں جو مجھے اتنے پیسے دیتے ہیں جس سے میرا اپنا ہی گزارہ چل جاتا ہے تو جو فیملی ہمارے حوالے ہے (اس سلسلے میں) کافی مشکلات کا سامنا ہے، یہاں کوئی ایسا کام نہیں جس سے میرا اپنا خرچہ بھی نکلے اور گھر کی کفالت بھی کر سکوں، تو مشکلات بہت ہیں ادھر پشاور میں تو ہم اس حکومت سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کوئی ایسا بندوبست کرے جس سے ہماری تنخواہ و دیگر مشکلات حل ہو سکیں۔”
افغانستان سے گذشتہ چند ماہ کے دوران آنے والے بیشتر افغان مہاجرین میں سے متعدد وہ ہیں جو اپنے ملک میں کسی نا کسی سرکاری عہدے پر کام کرتے تھے لیکن اب مہاجرت کی اس زندگی میں وہ دو وقت کی روٹی کو لے کر حیران و پریشان ہیں۔ ان میں سے بیشتر یہاں اپنی فیملی کے ہمراہ آئے ہیں۔
تاہم ننگرہار سے تعلق رکھنے والے بلال کی کہانی ان لوگوں سے ذرہ مختلف ہے۔ بلال اور ان کے والد افغانستان میں بھی دیہاڑی کرتے تھے اور حالات تبدیل ہونے کے بعد جب ان کے گھر میں فاقے شروع ہوئے تو باپ بیٹا وہی دیہاڑی لگانے کے لئے پشاور کے علاقے چمکنی آ گئے، ”پہلے وہاں کاروبار اچھا تھا تو ہم دیہاڑی کر لیتے تھے لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو ہم دیہاڑی بھی نہیں لگا سکتے تھے، چائے چینی کے لئے بھی حیران تھے، گھر میں آٹا ہوتا تھا نا کچھ اور، اب یہاں آئے ہیں، وہاں مزدوری نہیں تھی تو مجبوراً براستہ کوئٹہ یہاں آئے، اک اک جوڑا کپڑوں میں آئے ہیں، کچھ بھی نہیں ہمارے پاس یہاں، ادھر یہ ہے کہ دیہاڑی لگ جاتی ہے، ریت اینٹ اٹھا لیتے ہیں، دو تین سو روپے مل جاتے ہیں، نقدی لے کر آئے نا ہی ہمارے پاس ہے، اک میں ہوں اور اک والد صاحب اور بس زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہے ہیں۔”
بقول ان کے اگر ایک طرف بے روزگاری کی وجہ سے وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو دوسری جانب ادھر پشاور میں بھی ان کے ہاتھ کوئی اچھا روزگار نہیں آیا اور کہیں ایک ادھ دن کو دیہاڑی مل جاتی ہے لیکن یہاں بھی مہنگائی اور روزگار کی عدم موجودگی کے باعث گزارہ مشکل ہے۔
بلال پرامید ہیں کہ افغانستان میں جاری حالات میں کبھی تو بہتری آئے گی اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب وہ اپنے والد کے ہمراہ اپنے ملک، اپنے گھر واپس جائیں گے اور اپنی زندگی کو دوام بخشیں گے۔