فاٹا انضمام کے بعد ضم اضلاع کے خصوصی افراد کس حال میں ہیں؟
زاہد نور جان داوڑ
مہذب دنیا میں خصوصی افراد کو خصوصی اہمیت دے کر انہیں معاشرے کے کارآمد شہری بنایا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں خصوصی افراد کیلئے حصول تعلیم سے لے کر ملازمت کی فراہمی تک کا اہتمام ترجیحی بنیادوں پر کیا جاتا ہے مگر جس معاشرے میں خصوصی افراد کے حقوق نظر انداز کئے جاتے ہیں اور ان کی قدر نہیں کی جاتی وہ معاشرہ خود معذور اور بانجھ معاشرہ ہوتا ہے۔
کہنے کو تو ہمارے ملک میں بھی بہ ببانگِ دہل خصوصی افراد کے حقوق کے تحفظ کے دعوے کئے جاتے ہیں اور خاص خاص موقعوں پر خصوصی افراد کے ساتھ کھڑا ہونے کیلئے واک اور سیمینار کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر آج تک کبھی بھی خصوصی افراد کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں خصوصی افراد کے حقوق کیلئے کوئی تحفظ موجود نہیں ہے البتہ 1981 میں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس کی رو سے نہ صرف سرکاری ملازمتوں میں خصوصی افراد کیلئے ایک کوٹہ مقرر کیا گیا بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک نیشنل کونسل بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ ابھی تک یہ نیشنل کونسل بنی نہ ہی مخصوص کوٹے پر عمل درآمد ممکن بنایا جا سکا اور اس طرح یہ آرڈیننس خود معذوری کا شکار ہو کر رہ گیا۔
اگرچہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے خصوصی افراد کے حقوق کے کنونشن 2006 پر خصوصی افراد کے حقوق کے سلسلے میں اہم اقدامات اٹھانے کا وعدہ کر کے 2011 میں اس پر دستخط کئے لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ بہتری عملی طور پر نظر نہیں آ رہی۔
خصوصی افراد کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے خیبر پختونخوا بہت ہی پیچھے ہے۔ میں خود معذور ہوتے ہوئے پچھلے پانچ سال سے ایک سرکاری ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں بطور فارماسسٹ کام کر رہا ہوں لیکن ابھی تک ہسپتال کے ہاسٹل میں ایک کمرہ رہنے کے لئے نہ مل سکا حالانکہ تین سال متواتر درخواست دیتا رہا، جاب کوٹہ سسٹم کی حالت یہاں یہ ہے کہ کسی ڈپارٹمنٹ میں ایک ساتھ پچاس یا سو نوکریوں کا اشتہار ہوتا نہیں جبکہ پانچ یا دس یا بیس نوکریوں میں خصوصی افراد کا خیال رکھنا کسی کے ذہن میں آتا ہی نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 29 ملین خصوصی افراد ہیں جو ملک کی آبادی کا 12 فیصد حصہ بنتا ہے۔ خصوصی افراد کی یہ شرح پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں گذشتہ کئی دہائیوں سے انسانی بحران، بم دھماکوں، ای آئی ڈیز وغیرہ کا شکار ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری طرف ملکی سطح پر ان قبائلی علاقوں کے خصوصی افراد کو ہر لحاظ سے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ آج بھی قبائلی علاقوں کے 82 فیصد خصوصی افراد تعلیم سے محروم ہیں۔ آج تک اتنے بڑے علاقے میں خصوصی افراد کی تعلیم کیلئے کوئی ایک مخصوص سکول تک نہیں بنایا جا سکا، مجموعی طور پر ان قبائلی علاقوں میں خصوصی افراد کی صحت، تعلیم، روزگار ، معیشت اور رہن سہن کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کو کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی حتیٰ کہ قبائلی علاقوں میں خصوصی افراد کی تعداد اور معذوری کی نوعیت کے جاننے کیلئے بھی کبھی سنجیدہ کوشش (سروے) نہیں ہوئی ہے۔
مئی 2018 میں وفاق کے زیر اہتمام سابقہ قبائلی علاقے کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کیا گیا لیکن آج ان جنگ زدہ علاقوں میں خصوصی افراد کی حالت زار پہلے سے زیادہ ناگفتہ بہ نظر آ رہی ہے۔ اس سلسلے میں شمالی وزیرستان سے صوبائی اسمبلی کیلئے منتخب ایم پی اے میرکلام وزیر سے تین مرتبہ رابطہ کر کے آواز اٹھانے کی کوشش کی گئی اور ہر بار اس مسئلے کو اسمبلی کے فلور پر اٹھانے کا بھی وعدہ کیا گیا لیکن ہنوز یہ وعدہ محض وعدہ ہی رہا۔
خیبر پختونخوا خصوصاً قبائلی علاقوں میں خصوصی افراد کے حقوق، ان کی عزت نفس اور ان کی بنیادی ضروریات کے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے، معذور عورتوں کا گھر سے نکلنے تک کو ایک عیب سمجھا جاتا ہے۔
بیرونی ممالک میں معذور افراد کے ناموں کیلئے بھی قوانین بنائے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں وہ اپنے بنیادی حقوق کیلئے ترس رہے ہیں اور در بہ در ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔