کورونا ویکسینیشن: محکمہ صحت کو درپیش مشکلات اور شکایات کیا ہیں؟
رانی عندلیب، رفیع اللہ، علی افضال، عبدالستار مومند
خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کی ویکسین لگانے میں عوام کی جانب سے ایک بار پھر عدم دلچسپی ظاہر ہو رہی ہے، محکمہ صحت کے عملے کے مطابق عدم دلچسپی کی بنیادی وجوہات عوام میں سرائیت کرنے والی افواہیں اور محکمہ صحت کو نہ ملنے والی ہیلتھ پروفیشنل الاؤنسز سب سے بڑی رکاؤٹ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
پشاور مرشد آباد سے تعلق رکھنے والی آمنہ خاتون نے کورونا وائرس کی ویکسین میں عدم دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں بتایا کہ زیادہ تر لوگوں کا یہی ماننا ہے کہ کورونا وائرس کی شکل میں بین الاقوامی طور پر پاکستانی عوام کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں اننہوں نے بتایا کہ پہلے حکومت کی جانب سے عوام پر سخت دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ اگر ویکسین نہیں لگوائی تو ان کے شناختی کارڈ بلاک ہونے کے ساتھ ساتھ سفری پابندیاں اور تنخواہوں کی عدم فراہمی شامل ہو گی جس کی وجہ سے عوام نے ویکسین لگانا شروع کیں لیکن اب وہ دباؤ ختم ہو گیا ہے اور دوبارہ افواہوں نے جنم لیا ہے۔
مناحل نامی خاتون نے بتایا کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ افراد کورونا وائرس ویکسین لگوانے کے باوجود بھی وائرس کا شکار ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اب جس نے دونوں ڈوز لی بھی ہوں تو بوسٹر ڈوز میں وہ اتنی دلچسپی نہیں رکھتے، ”اس کے علاوہ وائرس کے اثر میں کمی واقع ہوئی تو عوام نے وائرس کو سنجیدہ لینے کی سوچ پس پشت ڈال دی لیکن بدقسمتی سے یہاں پر جب کسی کو وائرس لگ جائے تو وہ ویکسین لگوانے کیلئے فکرمند ہو جاتا ہے۔
مناحل نے مزید بتایا کہ ان کی جان پہچان والی خواتین میں ایسی بھی ہیں جنہوں نے ویکسین جب لی تو ان کی ماہواری میں بے قاعدگی واقع ہوئی اور وہ اس ڈر کی وجہ سے مزید ویکسین نہیں لگاتیں کہ کہیں اولاد کی پیدائش میں مسائل پیدا نہ ہوں۔
ضلع کرم میں بھی عدم دلچسپی کے کچھ مناظر سامنے آئے ہیں اور ہسپتالوں میں عوام کا رش کم نظر آتا ہے، ضلع کرم کے امداد حسین کے مطابق پروپیگنڈے تو بہت ہو رہے ہیں جن میں قوت مدافعت کی کمی کا سامنے آںا حقیقت ہے لیکن ڈاکٹروں اور صحت کے ماہرین کے مطابق ویکسین ہی کے ذریعے کورونا سے بچاؤ ممکن ہے۔
ضلع مردان میں محکمہ صحت کی کورونا ویکسین کی ٹیمیں اپنی خدمات جاری رکھے ہوئی ہیں، اسی طرح کی ایک ٹیم میں طاہرہ سید ایل ایچ ڈبلیو بامو خیل میں ویکسین لگا رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہیں ویکسین لگانے میں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں رہتا ہے۔
سہولیات کے بارے میں طاہرہ سید نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے انہیں سہولیات اس حد تک مہیا کی گئی ہیں کہ انہیں سینیٹائزرز، ماسک وغیرہ دیئے گئے ہیں لیکن انہیں ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس نہیں ملے مگر پھر بھی محکمہ صحت کی جانب سے دیا گیا ٹارگٹ پورا کرنے میں وہ سنجیدہ ہیں۔
محکمہ صحت ضلع سوات کے افسر ڈی ایچ او سلیم خان نے ویکسینیشن کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ ضلع سوات کی ٹوٹل آبادی تقریباً پچیس لاکھ ہے اور اس میں تقریباً 21 لاکھ افراد کو کورونا ویکسین پہنچائی گئی ہے، یہ تعداد اس لئے بڑھ گئی کہ جب بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو ویکسین لگانا شروع ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ان میں تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ افراد کو پہلی اور ساڑھے آٹھ لاکھ کو دونوں خوراکیں دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم خان نے خواتین کی ویکسینیشن کے بارے میں کہا کہ اس حوالے سے ان کے ساتھ کوئی مصدقہ اعداد و شمار نہیں لیکن ان کے مطابق لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعینات کردہ ٹیموں نے اپنے اہداف پورے کئے ہیں جو مختلف گھروں میں جا کر خواتین اور بارہ سال سے زائد عمر کی بچیوں کو ویکسین لگا رہی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس ایک دائمی وائرس کے طور پر رہے گا اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شکل تبدیل کرتا رہے گا مگر ان کے مطابق اس وارئس کا مقابلہ صرف ویکسین لگانے اور ایس او پیز پر عمل درآمد کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ڈاکٹر محمد سلیم نے یہ بھی کہا کہ اب بھی انہیں عوام کو ویکسین پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے، ان کے مطابق ضلع سوات میں 85 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور 15 فیصد وہ علاقے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہیں اور دوردراز علاقوں کے لوگ بھی ویکسین لگوانے ہسپتال نہیں آتے لیکن ان کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت اپنے اہداف پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔
انہوں نے ویکسینیشن میں مصروف عمل افراد کو ہیلتھ پروفیشنل الاؤنسز کی عدم فراہمی کے بارے میں بتایا کہ اب تک جتنی بھی آبادی کو کور کیا گیا ہے، اس میں کرایوں اور دیگر اضافی اخراجات محکمہ صحت کے اہلکاروں نے اپنی تنخواہوں اور جیب خرچ سے ادا کئے ہیں اور وہ مزید اس کی استطاعت نہیں رکھتے کہ دور دراز علاقوں میں مہنگے کرایے ادا کر کے وہاں پر ویکسین پہنچائیں۔
ڈاکٹر سلیم نے حکومت سے مطالبہ کہ محکمہ صحت کے اہلکاروں کو ہیلتھ پروفیشنل الاؤنسز بروقت فراہم کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ آبادی کو ویکسین پہنچائی جا سکے۔