صحت

خیبرپختونخوا: کرونا ریپڈ رسپانس ٹیمیں کئی ماہ سے الاؤنس سے محروم

 

خیبرپختونخوا میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران وزیرصحت نے انکے ساتھ کورونا میں اضافی ڈیوٹیاں سرانجام دینے والے اہلکاروں کو معاوضے ملیں گے مگر وہ وعدے گزشتہ دو سال سے وفا نہ ہوسکیں جبکہ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ انکے معاوضوں کا عمل مکمل ہوا ہے اور اسی ہفتے کے وسط میں انکے اکاؤنٹ میں پیسے بھیج دئے جائیں گے۔

کورونا وبا سے تحفظ کیلئے تشکیل دی ریپڈ رسپانس فورس میں کام کرنے والے ڈاکٹر محمد اسلام کا کہنا ہے کہ ریپڈ رسپانس فورس کی ٹیم تین افراد پر مشتمل ہوتی ہے جس میں دو ڈاکٹرز اور ایک ای پی آئی ٹیکنیشن ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ محکمہ صحت کے اہلکاروں پر کورونا کی اضافی ڈیوٹیاں ڈال دی گئی ہے پہلے ہم اپنی ڈیوٹیاں ہسپتال میں سرانجام دیتے ہیں اور جب ہمارے ڈیوٹی کا وقت ختم ہوتا ہے تو پھر اپنے علاقوں میں جا کر کورونا کی ڈیوٹیاں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف نے انہیں کسی قسم کی لاجسٹک سپورٹ فراہم نہیں کی جاتی ہے بلکہ علاقوں کے دورے کے موقع پر وہ اپنی گاڑی میں خرچ ہونے والی فیول بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں دوسرا یہ کہ ہر ٹیم 135 تک اپنی ٹارگٹ مکمل کرتے ہیں۔ جب سیمپل کلیکٹ کرتے ہیں تو اپنی گھر لوٹ کر ان پر مزید کام اپنی گھر میں ہی کرتے ہیں جس سے ہماری خاندان بھی متاثر ہوئی ہے۔

ڈاکٹر محمد اسلام کا کہنا ہے کہ اب تک انہیں صرف گزشتہ سال کی جنوری تک معاؤضے ملے ہیں اور اسکے بعد ایک ادھیلہ بھی نہیں ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے انہیں ملنے والے پیسے سائبر والے دیا کرتے تھے اور اب یہ اختیار ڈٰی جی ہیلتھ کو چلا گیا ہے جس کے بعد ہمیں ملنا شروع ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چار دفعہ احتجاج کرچکے ہیں جسکے نتیجے میں ہمیں یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ آپ کے معاوضے ایک ہفتہ کے اندر مل جائیں گے مگر وہ اب تک تاخیر کا شکار ہیں۔

پشاور لیڈی ریڈنگ ہستپال میں پیرامیڈیکس سٹاف سے تعلق رکھنے والے کورونا وارڈ میں کام کرنے والے توحید نواب کا کہنا ہے کہ ہماری زمہ داری ہے کہ جب کورونا وائرس کا متاثر مریض آجائے تو انکی حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور جب انکی سانسیں گرتی ہے تو انہیں اکسیجن فراہم کرتے ہیں۔

کہتی ہے کہ جب مریض میں ورثاء کی جانب سے تاخیر ہوجائے اور انہیں کوئی نقصان پہنچ جائیں تو گھروالے احتجاج کرجاتے ہیں جس کا سارا بوجھ بھی ہسپتال کے عملے کو اُٹھانا پڑتی ہے۔ کہتی کہ اسی وجہ سے مریضوں کی صحتیابی کیلئے وہ اپنی تمام ذاتی مصروفیات چھوڑ کر انکی تیمارداری کرتے ہیں۔

کہتی ہے”مگر دو سال کے باوجود ہمیں اضافی الاؤنسسز نہیں ملے جو کہ ہمارا حق ہے لیکن ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ انکے احتجاج کا حصہ ہونگے”

چیف ہیلتھ سیکٹر ریفارم یونٹ ڈاکٹر اکرام اللہ خان رپیڈ رسپانس فورس نے صوبہ بھر میں محکمہ صحت کے ساتھ بڑی تعاؤن کی ہے جہاں پر انہوں نے متاثرہ افراد کی نمونے لینے اور اسکے ٹسٹنگ میں مثالی کراد ادا کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ ان کو کچھ مہینوں کے معاؤضے میں ملے ہیں لیکن اب کچھ تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔ اب محکمہ صحت نے 110 ملین روپے بینکوں میں جمع کرائے گئے ہیں جسکی ساری عمل مکمل ہوچکی ہے اور آئندہ ہفتے کے وسط میں ہی موبی کیش کے ذریعے انہیں ادا کی جائے گی۔

ڈاکٹر اکرام اللہ نے ریپڈ رسپانس فورس کی رقم کے تاخیر کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے دوران ٹسٹنگ، ٹیموں کو لاجسٹک سپورٹ اور دیگر اخراجات کی وجہ سے محکمہ کے ساتھ وسائل کی کمی پیش آئی تھی جس کی وجہ سے انکی ادائیگیوں میں تاخیر ہوئی مگر یہ مسئلہ اب حل ہونے والا ہے۔
ایک سوال کہ ان الاونسسز مین کون کونسے سہولیات شامل ہوتے ہیں اور وہ کن بنیادوں پر فراہم کی جاتی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس میں دو قسم کے ٹیمیں ہوتے ہیں ایک ریپڈ رسپانس فورس ون اور ایک ٹو، اور ان کو ٹرانسپورٹ، اجرت اور دیگر اخراجات دئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کوویڈ وارڈ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ڈاکٹروں کو اضافی معاؤضہ نہ دینے کے سوال پر بتایا کہ دراصل وہ سرکاری ملازم ہیں اور انہیں رسک الاؤنس ملتی ہے اگر ‘خدانخواستہ کسی ڈاکٹر کی جان چلی گئی یا انہیں دوسرا کوئی ایسا مسئلہ دوران ڈیوٹی آیا جس سے انکو نقصان ہوا ہو تو انہیں تمام ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس ایگریمنٹ کے مطابق ملتی ہے۔

ڈاکٹر اکرام اللہ کا نے ینگ ڈاکٹر اور ریپڈ رسپانس فورس کو معاؤضے نہ ملنے اور احتجاج پر بتایا کہ اس سے عوام کی صحت کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ اگر اہلکار کورونا کی سیمپلنگ نہیں لیتے، ویکسین نہیں لگاتے تو وبا کنٹرول سے باہر ہوجائے گا، انہیں ہماری درخواست ہے کہ کوئی ایسی قدم نہ اُٹھائیں تاکہ عوام کی صحت کو نقصان پہنچے۔

انورزیب، سینا نعیم، جاوید محمود

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button