ایچ آئی وی: ’دکھ تب ہوا جب شوہر نے گھر سے نکال دیا‘
کائنات علی
‘ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص نے میری زندگی بری طرح متاثر کی سب سے زیادہ دکھ تب ہوا جب شوہر نے ساتھ دینا چھوڑ دیا جبکہ یہ بیماری بھی انہی سے مجھے منتقل ہوئی تھی۔‘
یہ الفاظ ہیں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی 29 سالہ رضیہ بیگم کے, جو ایچ آئی وی ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہے اور ابھی سات ماہ کی حاملہ بھی ہے۔
پاکستان میں ایچ آئی ایڈز کی بیماری کو زیادہ تر لوگ چھپاتے ہیں اورماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ اس بیماری کے ساتھ لگا ہوا سٹیگما ہے کہ یہ بیماری ’غیر محفوظ سیکس‘ کرنے سے لگتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایچ آئی ایڈز کے پھیلاو میں خواجہ سرا، سیکس ورکرز، استعمال شدہ سرنجز کے استعمال کا کردار ہے۔
رضیہ بیگم کی بھی ایچ آئی ایڈز میں مبتلا دیگر لوگوں کی طرح زندگی گزر رہی ہے اور ان کے آس پاس رہنے والے اب ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ رضیہ نے بتایا کہ خواتین کے لیے ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہے کیونکہ معاشرے میں ثقافتی رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ ایسی بیماری کا بدنما داغ لگ جائے تو پھر اپنے بھی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
رضیہ نے بتایا کہ ہمارے پشتون معاشرے میں شوہر کا گھر ایک خاتون کے لیئے سب سے بڑ کر ہوتا ہے اور ایک عورت کو گھر سے زبردستی نکالنے کا مطلب لوگوں کے نظر میں اسکو مار دینا ہوتا ہے اور میرے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔‘
انہوں نے بتایا ، ‘ایچ آئی وی میرے سمیت میرے شوہر کو بھی ہے لیکن ساس کے طعنوں اور شوہر کی بد سلوکیوں کی وجہ سے میں شوہر کا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئی اور بے یارومددگا اپنے بھائی کے گھر پر مجبوری کی زندگی گزار رہی ہوں۔‘
رضیہ کا کہنا تھا کہ ان کو یہ بیماری اس کے شوہر سے لگی تھی جو کہ متحدہ عرب امارات میں مزدوری کی غرض سے مقیم تھے اور کرونا وبا کی وجہ سے اپنے ملک واپس لوٹ گئے تھے۔
انھوں نے بتایا،’ شوہر کو ایچ آئی وی کے علامات بہت پہلے سے تھے لیکن شعور نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ میرا شوہر ایچ آئی وی کا مریض ہے یہی وجہ تھی کہ ان سے یہ بیماری مجھ میں منتقل ہوگئی۔‘
رضیہ کا کہنا تھا کہ کہ انکو تب پتہ چلا جب وہ ڈاکٹر کے پاس چلی گئیں اور ڈاکٹر نے شک کی بنیاد پر اسکا ایچ آئی وی ٹیسٹ کرایا اور اسکا ٹیسٹ مثبت آیا۔
‘یہ اگست 2021 کی بات ہے جب مجھے مسلسل بخار تھا اور جسم کے ہر حصے میں درد تھا۔ پہلے میں نے اسکو عام بخار سمجھا لیکن مسلسل درد اور بخار نے مجھے ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر مجبور کیا اور جب میرا بھی ٹیسٹ کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ میں بھی ایچ آئی وی مثبت ہوں۔‘
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم ایچ آئی وی سنٹر سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق فروری2022تک خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے آنے والے 663 افراد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی ہے اور زیر علاج ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم ایچ آئی وی سنٹر سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ایچ آئی وی کے سب سے زیادہ تعداد میں مریض پشاور سے ہے رپورٹ ہوئے ہیں جسکی تعداد 115 ہے۔
محمد کاشف حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم ایچ آئی وی سنٹر میں بطور کیس مینجر کام کرتا ہے۔ انھوں نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کے پاس مرکز میں 663افراد زیر علاج ہے تاہم یہ صرف پشاور کمپلیکس میں داخل ہے۔
کاشف کا کہنا تھا کہ صوبے میں موجود ہر سنٹر کے پاس اپنا ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ایچ آئی وی کے کل 6 سنٹر ہے جو کہ ڈی آئی خان، کوھاٹ، بنوں، بٹخیلا اور پشاور میں قائم ہیں۔
تیمرگرہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے سابق میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر انور زادہ کے مطابق ایچ آئی وی کی بیماری ایک وائرس سے لگتی ہے جو جسم کے ان خلیوں پر حملہ کرتا ہے جو جسم کو انفیکشن سے لڑنے میں مدد دیتے ہیں۔
أنور زادہ نے بتایا،’ ایچ آئی وی کی وجہ سے انسانی جسم کا امیون سسٹم کمزور ہوجاتا ہے اور انسان دوسرے انفیکشن اور بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ایچ آئی وی والے شخص کے بعض جسمانی رطوبتوں کے ساتھ رابطے سے پھیلتا ہے۔‘
ڈاکٹر أنور نے بتایا کہ عام طور پر غیر محفوظ جنسی تعلقات کے دوران (ایچ آئی وی کو روکنے یا علاج کرنے کے لیے کنڈوم یا ایچ آئی وی کی دوائی کے بغیر جنسی عمل)، یا انجیکشن دوائی کے آلات کے اشتراک سے ایک سے دوسرے انسان کو یہ بیماری لگ جاتی ہے۔
انھوں نے بتایا،’ اگر اس بیماری کا وقت پر علاج نہ کیا گیا تو، ایچ آئی وی ایڈز (ایکوائرڈ امیونو ڈیفیشینسی سنڈروم) کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر انور زادہ نے خبردار کیا کہ انسانی جسم ایچ آئی وی سے چھٹکارا نہیں پا سکتا اور ایچ آئی وی کا کوئی موثر علاج موجود نہیں ہے، لہذا، ایک بار جب انسان کو ایچ آئی وی ہو جاتا ہے، تو یہ زندگی بھر رہتا ہے۔
‘تاہم، ایچ آئی وی کی دوا لینے سے (جسے اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی یا اے آر ٹی کہا جاتا ہے)، ایچ آئی وی والے لوگ لمبی اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں اور اپنے جنسی ساتھیوں کو ایچ آئی وی کی منتقلی کو روک سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جنسی یا منشیات کے استعمال کے ذریعے ایچ آئی وی ہونے سے روکنے کے لیے موثر طریقے موجود ہیں، بشمول پری ایکسپوژر پروفیلیکسس (PrEP) اور پوسٹ ایکسپوژر پروفیلیکسس (PEP)۔’
اس بیماری کی سب سے پہلے 1981 میں شناخت کی گئی جو انسانیت کی سب سے مہلک وباؤں میں سے ایک ہے۔ ڈاکٹر أنور نے بتایا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں سے ہے جو ایچ آئی وی کی وبا سے زیادہ متاثر ہے۔ ’بہت سی کوششوں کے باوجود، پچھلے کچھ سالوں میں ایچ آئی وی انفیکشن کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘
پاکستان ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 94ہزار سے زائد ایڈز کے مریض کے جس میں 16ہزار خیبر پختونخوا میں ہے۔ پاکستان کی آبادی میں اگر ایڈز کی شرح پر نظر دوڑائے، تو عام پبلک میں یہ شرح 0.1فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں پر ایڈز کے سب سے زیادہ مریض پائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز پر اقوام متحدہ کا مشترکہ پروگرام کے سال 2020 میں شائع ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 183,705 افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔
پاکستان نے ایڈز پر قابو پانے کے لیے 1987 میں ایڈز کنٹرول پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ اب تک جتنے بھی تحققی سامنے آئے ہے، اس میں غیر محفوظ سیکس اس بیماری کے پھیلانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ سیکس کرتے ہیں، اور یہ بیماری دوسروں تک منتقل کرتے ہیں۔
جرنال آف میڈیسن کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں مرد سیکس ورکرز میں ایڈز کی شرح 1.6فیصد جبکہ خواتین میں یہ شرح 0.6فیصد ہے۔ تاہم صرف غیر محفوظ سیکس اس کی پھیلانے کی وجہ نہیں ہے۔ پچھلے سال صوبہ سندھ کے راٹوڈیرو میں ایڈز کی وبا پھیل گئی تھی جس سے بڑی تعداد میں بچے بھی متاثر ہوئے تھے۔
کیا ایچ آئی حمل کے دوران بچے کو منتقل ہو سکتی ہے ؟
ڈاکٹر انور سے جب پوچھا گیا کہ کیا ایچ آئی وہ حاملہ خاتون اپنے پیٹ میں بچے کو منتقل کر سکتا ہے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی کا عورت سے اس کے بچے کو منتقل ہونا ممکن ہے لیکن اگر ایک عورت حمل کے دوران ایچ آئی وی کا علاج کروا رہی ہے اور اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتی ہے، تو یہ ممکن ہے کہ بچے کو ایچ آئی وی لگنے کے خطرے کو بہت حد تک کم کیا جا سکے۔
رضیہ بیگم اپنے ہونے والے بچے کے لیے بھی پریشان ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کا کہ ایچ آئی وی ہوتا کیا ہے لیکن بعد میں جب اسکو اس قاتل بیماری کا پتہ چلا تو صدمے میں چلی گئی اور خود سے زیادہ اپنے پیدا ہونے والے بچے کے لیے پریشان ہے۔
رضیہ بیگم نے بتایا ،’ تقریباً چار مہینوں سے اسکا اور اسکے شوہر کا علاج جاری ہے۔ بہت دکھ اس وقت ہوا جب بیماری لگنے کے خوف سے میرے گھر والوں نے مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کا کہا اور میرے بنائے ہوئے کھانا کھانے سے بھی انکار کر دیا.’۔
اس مسلے پر بات چیت کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیئے کام کرنے والی سماجی کارکن لیلا شاہنواز کا کہنا ہے کہ خواتین اس بیماری کو اس لیئے چھپاتی ہے کہ ان کو معاشرے میں ٹھکرانے کا خوف ہوتا ہے۔
تاہم کچھ گھرانے سے ایسے بھی ہے جووہ خواتین جو ایچ آئی ایڈز کے خلاف لڑ رہی ہے، ان کا باقاعدہ علاج کرتے ہیں اور ان کو ہر قسم کی تعاون بھی فراہم کرتے ہیں۔ ایچ ایم سی میں قائم ایچ آئی وی سنٹر میں ہماری ملاقات خیبرپختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ شازیہ سے ہوئی جو کہ ایچ آئی وی پوزیٹو ہے اور اپنا علاج کر رہی ہے۔
شازیہ نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو ایچ آئی وی کی تشخیص دو سال پہلے ہوئی ہے اور اس کا علاج جاری ہے۔ایک سوال کے جواب میں شازیہ نے بتایا کہ ابتداء میں جب اسکو پتہ چلا کہ وہ ایچ آئی وی پوزیٹو ہے تو ایک ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی زندگی تباہ ہو گئی۔
‘مجھے یہ محسوس ہونے لگا ،اب سب مجھ سے دور بھاگنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ماضی میں میری ایک جاننے والی کے ساتھ ایسا ہوا تھا. لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میرے گھر والوں نے مجھے تسلی دی اور بغیر کسی دیر کیے میرا علاج شروع کیا اور اب میں ایک صحت مند زندگی گزار رہی ہوں’
شازیہ کا بتانا تھا کہ ان شوہر اور بچے اور خاندان کے دوسرے افراد اس کے ساتھ ایک ہی گلاس میں پانی پیتے ہیں اور ساتھ کھانا بھی کھاتے ہیں اور گھر والوں کی اسی مثبت رویوں کی بدولت میں ایچ آئی وی کے ساتھ ایک تندرست زندگی گزار رہی ہوں۔
ایچ آئی وی پر بات کرتے ہوئے محمد کاشف کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں لوگ ایچ آئی وی مریض سے دور بھاگتے ہیں اور اسکو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کہ ایک جہالت ہے۔
کاشف کا کہنا تھا کہ وہ ایچ آئی وی مریضوں کی کونسلنگ کرتا ہے اور ان کے ساتھ ایک ہی گلاس میں پانی پیتے ہیں تاکہ انکو یہ باور کرایا جائے کہ وہ اس مرض کے ساتھ بھی تندرست زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیلا شاہنواز کا بتانا تھا کہ اس حوالے سے خواتین میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک بیماری ہے اور جب تک اس حوالے سے خواتین میں شعور بیدار نہیں ہوگا تو یہ مسئلہ سنگین ہوتا جائے گا۔