”اپنا ڈاکٹر خود بننے کی وجہ سے میں ہسپتال تک جا پہنچی”
خالدہ نیاز
خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں میں شعور کی آگاہی، غربت اور باقی عوامل کی وجہ سے خواتین اپنا علاج اکثر گھریلو ٹوٹکوں کے ذریعے یا ایسی دوائیوں کے ذریعے کرتی ہیں جو ڈاکٹرز نے ان کو نہیں لکھی ہوتیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو خواتین ڈاکٹرز کی تجاویز کے بغیر اپنا علاج گھر پہ کرتی ہیں ان کی صحت ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑ جاتی ہے اور بعض اوقات سیلف میڈیکشن سے ان کی صحت پر برے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والی بخت جہاں کی صحت بھی اس وقت خراب ہونا شروع ہوئی جب انہوں نے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوائیوں کا استعمال شروع کر دیا، ‘مجھے سینے میں تکلیف شروع ہوئی تو میں ڈاکٹر کے پاس گئی اس نے مجھے کچھ دوائیاں لکھ کے دیں، میں نے استعمال کیں جس سے میں ٹھیک ہو گئی، اس کے بعد دوبارہ مجھے ویسی تکلیف محسوس ہوئی تو میں نے ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے خود وہی دوائیاں منگوائیں اور استعمال کیں جس سے میری صحت مزید بگڑ گئی۔’ بخت جہاں نے بتایا۔
بخت جہاں نے کہا کہ اپنا ڈاکٹر خود بننے کی وجہ سے وہ ہسپتال تک جا پہنچیں جہاں وہ تین چار دن تک داخل رہیں اور ڈاکٹرز نے ان کا علاج کیا اور اب وہ اس قابل ہو گئی ہیں کہ اپنے بچوں کی خدمت کرتی ہیں اور اب وہ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کبھی بھی خود سے دوائیوں کا استعمال نہیں کرتیں۔
ایوب ٹیچنگ ہسپتال کے ڈاکٹر عنایت اللہ کا کہنا ہے کہ بعض افراد جسم میں درد کے لیے بروفین یا ڈسپرین کا استعمال کرتے ہیں جس سے ان کے معدے پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ اینٹی بیاٹکس کا بھی خود سے استعمال شروع کر دیتے ہیں جس کے برے نتائج سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ ایک ڈاکٹر ہی بہتر طور پر بتا اور تجویز کر سکتا ہے کہ کون سی بیماری کے لیے کون سی دوائیاں کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں خود سے کبھی بھی دوائیوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے انسان کی صحت خراب ہوتی ہے اور مریض دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔
پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹ کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال گھریلو علاج اور سیلف میڈیکیشن کی وجہ سے پانچ لاکھ افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سوسائٹی کے صدر عبدالطیف شیخ کے مطابق سرکاری سطح پر اس اعداد و شمار کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں تاہم کچھ این جی اوز اور ہسپتالوں سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ہم محتاط اندازے کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ غلط انجکشن لگنے، سیلف میڈیکیشن یا غلط دوائی کھا لینے سے ہلاکتوں کی تعداد 4 سے پانچ لاکھ تک پہنچ چکی ہے، امریکا میں 80 ہزار افراد سالانہ اس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
بخت جہان کی طرح عارفہ بھی سیلف میڈیکیشن کی وجہ سے صحت کے مسائل میں گھر چکی ہے۔ ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ عارفہ نے بتایا ‘بچپن سے میرے پیر میں بہت درد رہتا تھا جس کے لیے میں گھر میں ہی پونسٹان کی گولی استعمال کر لیتی تھی جس سے مجھے وقتی طور پر آرام مل جاتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد اس کا میری صحت پر برا اثر پڑا کیونکہ میرا معدہ خراب ہو گیا اور باقی مسائل نے بھی آن گھیرا۔’
اس نے کہا کہ شروع میں وہ صرف پونسٹان کھا کر گزارہ کرتی تھی لیکن پھر اس کے پیر کا درد شدید ہو گیا تو اس کی چچی نے بتایا کہ اورین گولیاں استعمال کرو اس سے افاقہ ہو جائے گا تو پھر اس نے اورین گولیوں کا استعمال شروع کر دیا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر جس سے اس کو کافی افاقہ بھی ہوا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق موثر کنٹرول اقدامات کی عدم موجودگی میں 2050 تک ہر سال 10 ملین افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 0.5 ملین افراد ادویات کی خرابیوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
عارفہ کہتی ہیں ‘شروع میں، میں نے ایک گولی اورین کی کھائی تو میرا درد ٹھیک ہو گیا اور کچھ دن تک ٹھیک رہا پھر میں کچھ دن بعد گولیاں کھانے لگی اس کے بعد درد پھر شدید ہوا تو میں نے دن میں ایک گولی کھانا شروع کی اور اس کے بعد دو دو تین گولیاں کھانے لگی کہ پیر کا درد ٹھیک ہو جائے لیکن درد ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔’
عارفہ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اس کے والد اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے جہاں ٹیسٹ اور معائنے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ زیادہ گولیاں کھانے کی وجہ سے نہ صرف اس کا معدہ خراب ہوا اور اس کی نظر میں فرق آ گیا ہے بلکہ گردوں میں بھی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔
عارف کا کہنا ہے کہ اب وہ بہت پشیمان ہے کہ اس نے کیوں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر گولیاں کھا کھا کر اپنی صحت خراب کر دی۔ اس نے خواتین کو مشورہ دیا کہ چھوٹی سے چھوٹی بیماری کے لیے بھی خود علاج نہ کروائیں اور دوائیوں کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے سے کریں۔