شمالی وزیرستان: خیسور کے ایک لاکھ نفوس 25 کلومیٹر دور میرانشاہ میں ویکسین لگوانے پر مجبور
مزمل داؤڑ، نبی جان اورکزئی
ملک محمود کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب تک بہت کم لوگ ویکسینیٹ ہوئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ سے یہ ہے کہ گاؤں میں نہ کوئی صحت کا مرکز ہے اور نا ویکسین کا کوئی دوسرا ذریعہ۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ علاقے میں جتنے مالدار لوگ ہیں انہوں نے بنوں میں جا کر ویکسین لگوائی ہیں مگر یہاں پر زیادہ تر غریب لوگ رہتے ہیں جن کی بنوں جانے کی استطاعت نہیں ہوتی تو وہ ابھی تک ویکسینیٹڈ نہیں ہو سکے ہیں۔
ٹی این این کی جانب سے جب بی ایچ یو خیسور کا دورہ کیا گیا تو وہاں پر ڈاکٹر تھا نہ محکمہ صحت کا کوئی دوسرا اہلکار البتہ وہاں پر کتوں نے ضرور ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔
ملک محمود کہتے ہیں کہ وہ آپریشن ردالفساد سے سخت متاثر ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے اور اب ان کی معاشی صورتحال خراب ہو چکی ہے، ”اوپر سے یہاں پر ہسپتال بھی نہیں ہے اگر بی ایچ یو کی بلڈنگ ہے بھی تو اس کے ڈاکٹرز بنوں اور میران شاہ میں بیٹھے ہوتے ہیں۔”
ملک نے بتایا "جب سے کورونا وائرس پھیلا ہے، ویکسین تو چھوڑیں ڈاکٹر کو بھی نہیں دیکھا ہے۔ ڈاکٹرز ہوں گے تو ویکسین آئیں گی، ہمارا مطالبہ ہے کہ یہاں فوری طور پر ڈاکٹروں کے ساتھ ویکسین کا انتظام کیا جائے۔”
علاقے کے دیگر لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ریڈیو پروگراموں کے ذریعے کورونا بیماری کے بارے میں علم رکھتے ہیں مگر لوگوں کی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ ویکسین کیلئے کوئٹہ اور پشاور جائیں اور ویکسین لگوا آئیں۔
خیسور کے ایک اور رہائشی یحییٰ افریدی کا کہنا تھا کہ یہاں پر بی ایچ یو ہے مگر اب تک کسی کو بھی ویکسین نہیں لگائی جا چکی ہے کیونکہ ویکسین کا نظام موجود ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیسور کا علاقہ تقریباً ایک لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی ہے اور عمائدین علاقہ چاہتے ہیں کہ انہیں ویکسین لگائے جائیں اور اسی کیلئے اکثر لوگ 25 کلومیٹر دور جا کر میران شاہ میں ویکسین لگواتے ہیں۔
یحییٰ افریدی نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت صحت کی عدم سہولیات کا جائزہ لے کر یہاں پر سہولیات کا انتظام کرے تو ان کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے حکام قبائلی اضلاع میں کورونا ویکسین کے عمل میں کمی کی بھی تائید کرتے ہیں جسے وہ سیکورٹی خدشات سے جوڑتے ہیں۔
محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے ای پی آئی ڈائریکٹر ڈاکٹر عارف نے بتایا کہ سابق قبائلی علاقوں میں عوام تک ویکسین پہنچانے میں سب سے بڑا مسئلہ سیکورٹی کا ہے کیونکہ وہاں پر ماضی قریب میں مسلح افراد نے پولیو ڈیوٹی پر مامور سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے جس کی وجہ سے ہم تھوڑا احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
ڈاکٹر عارف کے مطابق محکمہ صحت کے ساتھ تقریباً آٹھ قسم کی ویکسین وافر مقدار میں موجود ہیں اور وہ مختلف علاقوں تک پہنچائی جاتی ہیں لیکن محکمہ صحت کی کوشش ہے کہ سابق قبائلی اضلاع میں کسی طریقے سے ویکسین پہنچائے جائیں تاکہ جنوری تک اپنا ٹارگٹ پورا کیا جا سکے۔