‘کرونا ویکسین کے لیے مزدوری کو نہیں چھوڑ سکتے’
کورونا وائرس کی وبائی مرض نے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے معاشی صورتحال کو سخت متاثر کیا اور اسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کارخانے اور معاشی ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے بند ہونے لگے جس کے ساتھ مزدور طبقہ بھی شدید متاثر ہوا لیکن حالات پر قابو پانے کیلئے فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے افراد کو ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کیلئے پابند بنایا گیا جس سے وائرس کے پھیلاؤ میں عملی طور پر کمی دیکھنے میں آئی۔
پاکستان کے کورونا وبا کے خلاف اقدامات کرنے والے ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر کے مطابق کورونا وائرس میں دن بدن کمی دیکھنی میں آئی ہے۔ ادارے کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صفر اعشاریہ 82 کے شرح تناسب کے حساب سے 370 مثبت کیسز میں صرف چار افراد جانبحق ہوئے ہیں۔
ماہرین صحت کورونا وائرس کیسز اور اموات میں کمی کی وجہ ایس او پیز پر عمل درآمد بتاتے ہیں۔ معیشت کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے کارخانوں اور فیکٹریوں کا بحال ہونا ضروری تھا مگر اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی ویکسین اور سماجی فاصلوں کا ہونا ضروری تھا۔
خیبرپختونخوا کے انڈسٹریل اسٹیٹ پشاور کے سلوشن ٹیپ بنانے والے کارخانے میں مردوں کے ساتھ بیشتر خواتین مزدور بھی کام کرتی ہیں۔ کارخانے میں کام کرنے والی خاتون بی بی گل کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران کارخانہ بند ہوا اور اس سے انہیں کافی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بی بی گل کا کہنا ہے کہ وہ کارخانہ کھلنے کیلئے کافی بے تاب تھی لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کب فیکٹری کھلے گی، انکے مطابق انہیں فیکٹری انتظامیہ نے بتایا کہ کورونا وائرس پھیل گیا اور دوبارہ فیکٹری تب بحال ہوگی جب وائرس میں کمی آجائے۔
انہوں نے کہا کہ دوبارہ آنے کے بعد فیکٹری مالکان نے نہ صرف انکو ویکسین لگائی بلکہ سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنا، ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال بھی یقینی بنایا۔
کارخانے میں نو ماہ سے کام کرنے والی خاتون سارہ کا کہنا ہے کہ آج فیکٹری کی دوبارہ بحالی کے بعد گیٹ پر داخل ہونے سے پہلے بخار چیک ہونے کے بعد سینیٹائزر لگا دیا گیا۔
کہتی ہے کہ کورونا وائرس سے قبل سنگل شفٹ میں سارے مزدور کام کرتے مگر لاک ڈاون کے بعد جب کارخانے کھل گئے تو مزدوروں کو ڈبل شفٹ میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ وبا پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول پایا جائے۔
دوسری طرف مزدورں کے حقوق پر کام کرنے والے تنطیموں کا ماننا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے مزدور طبقہ شدید متاثر ہوا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انکے ساتھ مالی تعاؤن کی جائے۔
لیکن دوسری طرف کارخانوں سے باہر مزدوری کرنے والے افراد میں بیشتر نے ویکسین نہیں لگائے ہیں جس کا اصل سبب وہ کورونا کے متعلق افواہیں اور فرصت کا نہ ملنا بتاتے ہیں۔
پشاور صدر کے ایک چوراہے پر انتظار میں بیٹھے مزدور نصیراللہ کا کہنا ہے کہ اب تک انہوں نے ویکسین نہیں لگایا کہ اب تک وہ ویکسین کے متعلق لاعلم ہے کہ کہاں پر لگانا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ویکسین کیلئے اپنی مزدوری نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک اور مزدور خالد خان نے ویکسین لگائی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ وبا کے دوران انتہائی متاثر ہوئے، ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف لاک ڈاؤن تھی جس کی وجہ سے وہ مالی طور پر متاثر ہوئے۔
انہوں نے مزدوروں کو اپیل کی ہے کہ معاشی مسائل سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ ویکیسن لگائی جائے تاکہ حکومت دوبارہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے پر مجبور نہ ہوجائے۔
خیبرپختونخوا میں مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والے تنظیم لیبر رائٹس آرگنائزیشن کے عہدیدار حسن حساس نے ٹی این این کو بتایا کہ وبا کے دوران کارخانوں کی بندش سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوئے اور انہوں نے اپنی جمع پونجی خرچ کردی اور بعد میں ادھار کے ذریعے اپنی زندگی گزارتے رہے۔
حسن حساس کہتے ہیں کہ ایک طرف شدید مہنگائی ہے اور دوسری طرف مزدوروں کا کام روکنا انسانی المیہ کی طرف ایک قدم ہے جس سے حکومتوں پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آفت کے دوران وہ اپنے لوگوں کا خیال رکھیں۔
کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق خیبرپختونخوا میں 85 افراد کورونا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے لیکن آج تک انکی امداد نہیں کی گئی۔
حسن خان کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے دوران انکی تنظیم نے مزدوروں میں ویکسین لگانے کی ایک بھرپور مہم چلائی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ کورونا نہ صرف ایک جان لیوا مرض ہے بلکہ اس کے ساتھ آُپ کی معاشی حالات مزید بھگڑ سکتے ہیں لہذا ویکسین آپ کو ان مسائل سے بچا سکتی ہیں۔
اس سٹوری کے لیے انور زیب، نظام الدین افغان اور انعام اللہ نے معلومات فراہم کی ہے۔