کورونا وبا کی نئی قسم اومیکرون سے بچنے کیلئے ڈاکٹرز کیا تجاویز دے رہے ہیں؟
عالمی وبا کورونا وائرس کی نئی شکل اومیکرون نے ایک بار پھر دنیا کو تشویش میں مبتلا کر کردیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کورنا کی نئی قسم اومیکرون ڈیلٹا سے تین گنا زیادہ تیزی سے پھیلنے والی وائرس ہے۔
اس وائرس نے پاکستان کو بھی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے مگر نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر کے حکام کا کہنا ہے کہ جس طرح انہوں نے کورونا کی ڈیلٹا ویرئینٹ پر قابو پالیا اسی طرح اسکی روک تھام کیلئے بھی اقدامات اُٹھائیں جائیں گے۔
مگر اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اومیکرون سے لوگ کتنے واقف ہیں اور وہ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ پشاور یونیورسٹی کے ایک طالبہ عائشہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں مکمل طور پر علم نہیں مگر ٹی وی اور ریڈیوز کے ذریعے سُنا ہے کہ اومیکرون کرونا وائرس کی ایک خطرناک شکل ہے۔
انکا کہنا ہے کہ اس سے بچاؤ کیلئے ڈاکٹرز اور ماہرین صحت کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہوگا کیونکہ گزشتہ ڈیلٹا ویرئینٹ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد زیادہ تھی۔
ایک اور طالبہ شانزہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے میڈیا کے ذریعے وائرس کے متعلق کافی علم حاصل کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سماجی فاصلہ رکھنے، ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر کے استعمال سے انکی جان محفوظ رہ سکتی ہے۔ شانزہ نے بتایا کہ ایس او پیز پر عمل درامد کرنے کے علاوہ انکا نہیں خیال کہ وائرس سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
جویریہ کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران انکی پہلے ہی سے تعلیم پر منفی اثرات پڑے ہیں لیکن وہ نہیں چاہتی کہ اومیکرون کی وجہ سے دوبارہ انکے تعلیمی ادارے بند ہوجائے۔
ادھر وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت فی الحال تعلیمی اداروں کی بندش کے حوالے سے نہیں سوچا اور انکی کوشش رہے گی کہ طلباء کو یہ باور کرائیں کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کو بحال رکھنے کیلئے ایس او پیز پر عمل درامد کرے۔
ڈی آئی خان سے وحیداللہ کا کہنا ہے کہ انہیں معلومات ہے کہ کورونا ایک جان لیوا بیماری ہے اور نئی لہر اومیکرون سے وہ ناواقف ہے لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھتے ہیں کہ ایس او پیز پر عمل درامد کرے۔
ایک طرف اگر وبا نے پنجے گھاڑ دیئے ہیں تو دوسری محکمہ صحت کی جانب سے اس وبا کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں جس کے لئے دیہاتی علاقوں میں لوگوں کو ویکسینیٹ کرنے کیلئے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہے جہاں پر عوام کو اپنے ہی گھر میں ویکسین لگائی جاتی ہے۔
اسی طرح ضلع مردان میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے محکمہ صحت کی ٹیم بھی گھروں اور گاؤں کے حجروں میں جاکے عوام کو ویکسین لگا رہی ہے۔
مردان کے خورو بانڈہ میں اس وقت کورونا وبا کےخلاف ایک حجرے میں محکمہ صحت کی جانب سے ویکسینینشن کا عمل جاری ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکر عاصمہ کا کہنا ہے کہ گھر گھر جا کر ویکسین لگانا انکے لئے بہت مشکل عمل ہوتا ہے تو اسلئے انہوں نے یہ مہم ایک حجرے تک محدود کیا ہے جہاں پر خواتین اور مرد ویکسینشین کیلئے آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیہاتی علاقوں میں اکثر انہیں چیلنج پیش ہوتا ہے کہ بعض خواتین کے پاس شناختی کارڈ حتی کہ فارم ب بھی نہیں ہوتا تو اس وجہ سے وہ ویکیسن سے رہ جاتے ہیں۔
عاصمہ کہتی ہے کہ کچھ خواتین افواہوں سے متاثر ہوئی اور وہ ویکسین لگانا نہیں چاہتی تھی لیکن انہیں قائل کرنے کیلئے ہم دلیل اور منطق سے کام لیتے ہیں جس پر وہ راضی ہو کر ویکسین لگاتی ہیں۔
لیکن عاصمہ کہتی ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے دیہاتی علاقوں کے لوگ مکمل طور پر لاعلم ہے البتہ ہیلتھ ورکرز کو اس حوالے سے تھوڑی بہت معلومات ہے۔
کورونا وبا سے تحفظ کیلئے قائم کیے گئے سرکاری ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر کے ایک بیان کے مطابق کہا گیا ہے کہ انہوں نے کورونا وبا کے دوران ہنگامی صورتحال اور اس پر قابو پانے کیلئے اقدامات اٹھانا سیکھ لیا ہے اور اب وہ اومیکرون وائرس سے نمٹنے کیلئے بھی تیار ہے۔
نینشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر کے خیبرپختونخوا کے رُکن ڈاکٹر افتخار الدین کا کہنا ہے کہ نئے ویریئنٹ اومیکرون سے بچاؤ کے دو طریقے ہیں ایک ماسک لگانا، سماجی فاصلہ رکھا اور دوسری بات یہ یے کہ زیادہ سے زیادہ آبادی کو ویکسین لگایا جائے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی جس نے کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز یا دوسری نہیں لگائی ہو تو انہیں چاہئے کہ وہ کورونا سے تحفظ کیلئے ویکسین لگائیں۔
ڈاکٹر افتخار الدین کا کہنا ہے کہ اب حکومت نے کورونا وبا سے شہریوں کو پوری طرح محفوظ رکھنے کیلئے تیسری ڈوز لگانے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں جسے بوسٹر ڈوز کہا جاتا ہے۔
تیسری ڈزو کے لئے پالیسی یہ بنائی گئی ہے کہ سب سے پہلے اس میں محکمہ صحت کے اہلکاروں اور پچاس سال سے زائد عمر کے افراد کو لگائی جائی گی جبکہ بعد میں گزشتہ کورونا ویکیسن کے طریقہ کار کی طرح عمر کے حساب سے لگائی جائے گی۔
ڈاکٹر افتخارالدین نے اومیکرون سے تحفظ کیلئے عوام میں شعور بیدار کرنے کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ڈیلٹا ویرئینٹ نمودار ہوئی تو عوام کو حفاظتی اقدامات کے حوالے سے حساس بنانے کیلئے سوشل میڈیا، میڈیا اور مختلف چوراہوں پر لگے پوسٹرز سے مدد لیا تھا بالکل اُسی طرح اب بھی یہ پالیسی عمل میں لائی جائی گی۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ اومیکرون چند دن پہلے نمودار ہوئی تو اب اس کے لئے اقدامات اُٹھانے پر غور ہو رہا ہے اور اسکے لئے این سی او سی نے ویکسین پر زیادہ زور دینے اور تیسری ڈوز لگانے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبہ بھر میں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد کو کورونا کی پہلی ڈوز لگائی گئی ہے جبکہ دوسری ڈزو 75 لاکھ افراد کو لگائی گئی ہے۔
این سی او سی کے ممبر ڈاکٹر افتخارالدین کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا وائرس کے دوران ہسپتالوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑا تھا مگر ہم نے ان مریضوں کا خوب علاج کیا اسی طرح وہ اومیکرون سے متاثرہ افراد کے علاج کیلئے بھی اہلیت رکھتے ہیں۔
اس سٹوری کے لیے سینا نعیم ، مجاہد تاثیر اور محمد طیب اور عبد الستار نے معلومات فراہم کی ہے۔