کورونا وائرس کی نئی قسم ”اومیکرون” کی علامات کیا ہیں اور دستیاب ویکسین اس کے خلاف کتنی مفید ہیں؟
نظام افغان
کورونا وباء کے بعد دنیا بھر میں اس وائرس کی دوسری قسم اومیکرون نمودار ہوئی جس نے یورپی ممالک سمیت پاکستان کو بھی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، دیگر ممالک کی طرح حکومت پاکستان نے بھی بروقت اقدامات اُٹھاتے ہوئے کئی ممالک سے افراد کے داخلے پر پابندی لگائی ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون جنوبی افریقہ کے ایک صوبے میں دریافت ہوئی ہے جس کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں اوریجنل کورونا وائرس کے مقابلے میں اس قدر تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ کورونا کی اب تک بنائی جانے والی ویکسینوں کا اثر 40 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ اس سے قبل سامنے آنے والے کورونا وائرس ویریئنٹ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ اس میں تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ ویکسین کے خلاف مزاحمت بھی اس میں زیادہ ہے۔
جنوبی افریقا کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس نئے ویرینٹ میں اتنی زیادہ تبدیلیاں ہیں کہ اس کی توقع سائنسدانوں کو نہیں تھی۔
نئے ویریئنٹ کی علامات کیا ہیں؟
خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے ٹیچنگ ہسپتال خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر معراج الدین کا کہنا ہے کہ جس طرح 2019 سے کورونا وباء شروع ہوئی اور اس وائرس کی شکل میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں تو اسی طرح اومیکرون بھی کورونا کی شکل میں تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے اس نئے ویریئنٹ کی علامات تو کافی حد تک وہی ہیں جو اس سے قبل دیکھنے میں آئی ہیں یعنی بخار، کھانسی، تھکن، ذائقہ چلا جانا، سونگھنے کی حس کا ختم ہونا اور زیادہ سنگین حالت میں سانس لینے میں دشواری اور سینے میں تکلیف وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر معراج الدین کے مطابق اس بات کی کوئی مصدقہ اطلاعات یا تحقیق سامنے نہیں آئی ہے کہ یہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے (البتہ) ماہرین نے یہ بات واضح کی ہے کہ یہ وائرس دوسرے افراد کو بہ آسانی منتقل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی علامات زیادہ خطرناک نہیں بلکہ وہی علامات ہیں جو عام طور پر لوگوں کو ہو سکتی ہیں، ”چونکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران یہ وائرس تقریباً تمام ممالک میں پھیل چکا ہے اور پاکستان میں بھی اس کے آنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے سے متاثرہ ممالک جیسے برطانیہ، سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور جرمنی سے افراد یہاں آتے ہیں۔
ڈاکٹر معراج نے کہا کہ اگر اس کے لئے بروقت اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو یہ وباء ایک بار پھر پھیل سکتی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آبادی کا زیادہ حصہ ویکسین لگائے لیکن یہ بات قبل از وقت ہو گی کہ کورونا ویکسین اس کے لئے کتنی مفید ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اومیکرون جنوبی افریقہ کورونا کی ڈیلٹا قسم سے زیادہ ترتیزی سے پھیل رہا ہے، ڈیلٹا کے مقابلے میں بیماری دوبارہ لاحق ہونے کا خدشہ بھی تین گنا زیادہ ہے۔
ڈاکٹر معراج کے مطابق جغرافیائی طور پر اومی کرون کا پھیلاؤ اتنا وسیع ہے مگر موجودہ صورتحال میں رپورٹ نہیں کیا جا رہا، ”ہم کورونا کے پہلے ڈیلٹا ویریئنٹ سے بھی سبق سیکھ چکے ہیں لہٰذا تمام ممالک کو نئے ویریئنٹ اومی کرون کے لیے تیار رہنا چاہیے۔