افغانستان میں بدلتی صورتحال، طورخم بارڈر پر آنے جانے والے مسافر مشکلات کا شکار
رانی عندلیب
‘بہت تکلیف ہوتی ہے جب علاج کی سہولت نا ہونے کی وجہ کوئی اپنا سرحد پر تڑپتا ہو اور ور کاغذی کاروائی میں کافی دیر ہوجاتی ہے لیکن اب ہم اور بھی فکر مند ہیں کہ طالبان کی حکومت میں کیا پاکستان آسانی سے ہمیں سفری سہولیات دے گا یا نہیں’
65 سالہ بخت پری کہتی ہیں کہ افغانستان کے لوگوں کے علاج و معالجے کا پورا دارو مدار خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے نجی و سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹروں پر ہیں جو لوگ پاکستان میں مقیم ہیں انکو تو علاج کا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ہمیں اور ہم جیسے تمام افغانیوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جو سرحد کے اس پار ہیں۔
افغانستان پر ۱۹۷۹ میں روس کے حملے کے بعد کافی تعداد میں افغانیوں نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان ہجرت کی اور یہاں محنت مزدوری شروع کرکے آباد ہوئے اور آج کل پاکستان میں تقریبا 30 لاکھ تک افغان باشندے آباد ہیں جن میں ۱ اعشاریہ ۴ ملین حکومت پاکستان اور یو این ایچ سی آر(اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین) کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی غیر رجسٹرڈ افغانی باشندے ہیں۔
امریکہ کے 2001 میں افغانستان آنے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کافی تعداد میں افغان بانشندوں نے اپنے وطن واپسی کی تھی لیکن اب دو ہزار اکیس میں امریکہ کے جانے کے بعد اور طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان کے لوگ سرحد پار کر کے پاکستان آرہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے ترجمان محمد عاصم کا کہنا ہے کہ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں بلاتفرق افغان مہاجرین کا علاج ہوتا ہے ان مہاجرین کی باقاعدہ رجسٹریشن ہوتی ہے جس طرح پاکستانی اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کا ہسپتالوں میں علاج ہوتا ہے اسی طرح کا علاج افغان مہاجرین کا بھی ہوتا ہے۔
جہاں تک بارڈر پر افغان لوگوں کی بات کی جائے تو وہ ان لوگوں کے مسئلے ہیں کہ ان کو بارڈر پر آنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں لیکن پاکستان میں آنے کے بعد ہسپتالوں میں علاج اور سہولیات خیبر پختون خوا کے لوگوں جیسے دی جاتی ہے۔
اعتبار گل جس کا تعلق افغانستان کے قندھار صوبے سے ہے کا کہنا ہے کہ جب طالبان کی دوبارہ حکومت آئی تو تمام افغانی اور غیر ملکی افغانستان چھوڑ کر بیرونی ممالک چلے گئے. ان کے دل میں وہی پرانا خوف تھا کہ پہلے جیسے طالبان کی حکومت ہوگی لیکن اس دفعہ سب کچھ پہلی حکومت کے برعکس ہے۔
اس کا اندازہ اعتبار گل کو تب ہوا جب اس کے تمام اہل خانہ اعتبار گل کو چھوڑ کر بیرونی ممالک منتقل ہو گئے اور اعتبار گل کو اکیلے اپنےملک میں بے یار اور مددگار چھوڑ دیا۔
اس دوران اعتبار گل کو کینسر کی بیماری لاحق ہوگئی اعتبار گل اپنا علاج کرنا چاہتا ہے لیکن افغانستان میں کوئی بھی کینسر کا بڑا ہسپتال نہیں ہے اور نہ صحیح ڈاکٹرز افغانستان میں علاج کی بہتر سہولت نا ہونے کی وجہ سے انکو پشاور آنا پڑا۔ کینسر کیا افغانستان میں کسی بھی مرض کے لئے کوئی بہتر صحت سہولت نہیں ہے جن لوگوں کی مالی حالت اچھی ہو وہ پشاور ہی آتے ہیں۔
افغان کمشنریٹ کے ڈائریکٹر فضل ربی کا کہنا ہے کہ مئی سے اب تک خیبر پختونخوا میں تقریبا 33 ہزار افغان مہاجرین طورخم بارڈر کے ذریعے خیبر پختونخوا آئے ہیں ان مہاجرین کے لیے ابھی تک کوئی کیمپ نہیں لگائے گئے ہیں,ان مہاجرین میں,27 ہزار کوSHARPنے رجسڑرڈ کیا ہے ان میں 52 فیصد مرد حضرات اور 48 فیصد خواتین شامل ہیں فضل ربی کا مزید کہنا ہے طورخم بارڈر پر ان کے ڈاکٹرز بھی موجود ہیں وہاں پر افغان مہاجرین کا معائنہ کرکے تشویشناک مریضوں کو اسی وقت ویزے فراہم کرتے ہیں ان مریضوں کی اوسطا تعداد 15 سے 17 فیصد ہے اکتوبر میں 895 مریضوں کو ویزے دیئے گئے جوخیبر پختونخوا علاج کیلئے آئے ہیں ان میں 827 کی حاضری ان کے پاس موجود ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے۔ ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں آنے والی تبدیلی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے خاص کر خیبر پختونخوا اس کے اثرات سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا کیونکہ طورخم بارڈر کے راستے خیبرپختونخوا آجاتے ہیں 80 اور 90 کی دہائی میں جیسے آئے تھے.
اس لیے اکثر ذہنوں میں یہ سوال موجود ہے کہ مستحکم ہونے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی معیشت اور تجارت پر یہ صورت حال کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے جب دواد شاہ سے پوچھا گیا جو پچھلے بیس سال سے افغانستان کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہر دور میں کاروبار میں اوچ نیچ آتی رہتی ہے لیکن کسی بھی حکومت میں کاروبار مکمل بند نہیں ہوتا کیونکہ سیاست کے معاملات اپنی جگہ لیکن تجارت کا اپنا ہی اصول و طریقہ کار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی مال وہ افغانستان سپلائی کرتا ہے مہنگا لیا جاتا ہے تو اسی حساب سے بیچا جاتا ہے تو حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں مہنگائی بڑھ جاتی ہیں پھر جنگ زدہ لوگوں کے لئے زندگی گزارنا کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔
داؤد شاہ نے اس سوال کے جواب میں کہ کس طرح افغان مہاجرین کی ہجرت سے خیبرپختونخوا کی تجارت معیشت صحت پر اثر پڑے گا ؟ کہا کہ بالکل پڑے گا کیونکہ ایک دم سے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کا خیبرپختونخوا میں منتقل ہونا اور پھر علاج معالجے کاروبار اور صحت پر اثر پڑے گا اگر دیکھا جائے توپہلے سےخیبرپختونخوا پر افغان مہاجرین کا بہت بڑا بوجھ ہے۔
کم وسائل ہیں اور زیادہ مسائل اتنی زیادہ آبادی کو ضروریات زندگی کی تمام سہولیات میسر کرنا کٹھن کام ہے کیونکہ پاکستان پہلے سے معاشی مسائل سے گزر رہا ہے۔
طالبان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جس بیانیے کا پرچار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان علاقوں میں امن کی بحالی اور سکیورٹی یقینی بنائی جائے گی اوراسلامی قانون یعنی ’شریعہ‘ کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا۔
بالکل اسی طرح 2021میں طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے 23 دن بعد افغان طالبان کے ترجمان نے وزیراعظم اور ان کے دو معاونین سمیت طالبان کی 34 رکنی عبوری کابینہ اور حکومت کا اعلان کیا جس میں 20 وزرا اور سات نائب وزرا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور افغان مرکزی بینک کے سربراہ سمیت حکومت کے ڈائریکٹر برائے انتظامی امور کا بھی تقرر کیا گیا ہے۔ ان 34 عہدوں میں تین افراد کے علاوہ تمام پشتون النسل مرد افغان ہیں اور کابینہ میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ جنوبی افغانستان کو ’گریٹر قندھار‘ ریجن بھی کہا جاتا ہے جہاں سے طالبان نے نوے کی دہائی میں جنم لیا جبکہ جنوب مشرقی افغانستان ’گریٹر پکتیا‘ ریجن کو کہا جاتا ہے، جہاں سے نائن الیون کے طالبان مولوی جلال الدین حقانی اور مولوی سیف اللہ منصور گروپوں نے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے خلاف جنگی محاذ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔