پنجاب حکومت نے مصنوعی بارش کی مقامی ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کر لیا
ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مصنوعی بارش جہاں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں۔
پنجاب حکومت نے مصنوعی بارش کی مقامی ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کر لیا اور محکمہ موسمیات نے بارش کی تصدیق بھی کر دی۔
حکومت پنجاب نے دعویٰ کیا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں پنجاب ایک بار پھر آگے نکل گیا اور مصنوعی بارش کی مقامی ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ محکمہ موسمیات نے تصدیق کر دی کہ جہلم، چکوال، تلہ گنگ اور گوجر خان میں ‘سیڈ کلاوڈنگ’ کے نتیجے میں جہلم اور گوجر خان میں بارش ہوئی ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ دوپہر دو بجے ‘کلاوڈ سیڈنگ’ کی گئی تھی جس سے جہلم اور گوجر خان میں چند گھنٹوں بعد بارش ہوئی؛ ‘کلاوڈ سیڈنگ’ کے اثرات لاہور میں بھی بارش کی صورت برآمد ہونے کا قوی امکان ہے، مصنوعی بارش سے اسموگ میں کمی لانے میں بڑی مدد ملے گی۔
بیان میں کہا گیا کہ افواج پاکستان کے سائنسی تحقیق اور ترقی کے ماہرین (ایس پی ڈی)، آرمی ایوی ایشن، پارکو، ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (ای پی اے) اور حکومت پنجاب نے اشتراک عمل سے مصنوعی بارش کے منصوبے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے تمام متعلقہ اداروں اور سائنسی ماہرین کو اس کامیاب تجربے پر مبارک باد دی اور کہا کہ آج آپ کی محنت، لگن اور قابلیت سے صوبہ پنجاب نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، پوری قوم آپ پر فخر کرتی ہے۔
سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے عوام اور تمام ٹیم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ الحمدللہ، آج بارش کی صورت میں اچھی خبر آئی ہے، گزشتہ برس متحدہ عرب امارات کے تعاون سے مصنوعی بارش برسانے کا تجربہ کیا گیا تھا، جبکہ اس بار 100 فیصد اپنی مقامی مہارت اور ٹیکنالوجی سے کامیاب تجربہ کیا گیا۔
مصنوعی بارش کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ ماہرین
دوسری جانب ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مصنوعی بارش جہاں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں: پہلی بات تو یہ کہ بادلوں کو برسایا تو جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ہی رکیں گے؛ اور دوسری بات اس سے ماحول پر غیرفطری دباؤ بڑھ جاتا ہے جس سے شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے۔ چونکہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق مصنوعی بارش برسانے کے اس عمل میں بہت سے کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ؛ کیلشیم کلورائیڈ، پوٹاشیم کلورائیڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ، ایلومینیم آکسائیڈ اور زنک شامل ہیں، تاہم ان میں سب سے زیادہ مہلک سلور آیوڈائیڈ ہے۔
تنزانیہ میں پانی اور انسانی مسائل پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر وکٹوریہ نگومو کے مطابق مصنوعی بارش سے بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں ایڈز، ملیریا، اور کینسر جیسے مہلک امراض شامل ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی تحقیق کے مطابق پانی میں حل نہ ہونے والا سلور آیوڈائیڈ ایک زہریلا مادہ ہے جو پانی کو آلودہ کر دیتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ کیمیکل انسانوں، مچھلیوں اور دیگر جانداروں کے لیے زہر کا درجہ رکھتا ہے، اور جِلد، سانس اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی کم مقدار بھی نظام انہضام کی خرابی، گردوں اور پھیپھڑوں میں زخم کا سبب بنتی ہے۔
واضح رہے کہ 1946ء میں پہلی مرتبہ ونسنٹ شیفر اور برنارڈ وونیگو نامی دو امریکی سائنس دانوں نے ڈرائی آئس کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیاب کلاؤڈ سیڈنگ، اور اس کے نتیجے میں مصنوعی بارش کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
آج دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں؛ اور خشک سالی تک کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اس کا استعمال کر رہے ہیں۔