فاٹا انضمام

‘چلتا پھرتا ڈاکومنٹری فیسٹیول’ انوکھے موضوعات پر بنی ڈاکومنٹریز آن لائن دیکھیں!

ڈاکومنٹری ایسوسیشن آف پاکستان نے 22 اگست سے 29 نومبر تک ‘چلتا پھرتا ڈاکومنٹری فیسٹول’ شروع کیا ہے جس میں پاکستانی فلم میکرز کی ڈاکومیٹریز یوٹیوب پر چلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ ڈاکومنٹرز ہر ہفتے کی شام 6 بچے براڈ کاسٹ کی جاتی ہیں جس میں فلم میکرز ان موضوعات پر آن لائن سوالوں کے جوابات بھی دیتے ہیں۔

منتظمین کو پاکستان میں ڈاکو منٹری فیسٹیول کا انوکھا خیال کیسے آیا، اس حوالے سے ڈاکومنٹری ایسوسی ایشن آف پاکستان کی شریک بانی اور فیسٹیول کی آرگنائزر حیا فاطمہ اقبال کہتی ہیں کہ یہ آئیڈیا ان کا اور ان کے 4 چار ڈاکومنٹری میکر دوستوں کا مشترکہ ہے۔ چونکہ ان کی بنائی گئی ڈاکومنٹریز باہر ممالک میں بڑی جوش و خروش سے دیکھی جاتی ہیں اور اکثر ایوارڈز بھی جیت لیتی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ فلمیں ہمارے اپنے ملک کے لوگوں تک بہت کم پہنچتی ہیں۔

اس کی وجہ حیا فاطمہ بتاتی ہے کہ باہر کیلئے بنائی گئی ڈاکومنٹریز میں کاپی رائٹس کے ایشوز ہوتے ہیں کیونکہ ان کے براڈکاسٹ کے سارے حقوق متعلقہ چینل کے پاس ہوتے ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ہم وہ فلمیں اپنے لوگوں کو نہیں دکھا سکتیں تو ہم چند دوستوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ اپنے ملک کے ایشوز پر ڈاکومنٹری فلمیں بنائیں گے اور اپنے ہے ملک کے لوگوں کو دکھائیں گے اور اسی طرح ‘چلتا پھرتا ڈاکومنٹری فیسٹیول’ کا آغاز کیا گیا۔

فیسٹیول میں خواجہ سراؤ کے مسائل پر بھی ڈاکومنٹری بنائی گئی ہے۔

اس فیسٹیول کے پہلے راونڈ میں انھوں نے سات ڈاکومنٹریز مختلف شہروں میں جا کر اسکرین کروائی تھی اور دوسرے راؤنڈ میں 9 ڈاکومنٹریز دکھائے جانے کا پروگرام تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے شہر شہر جاکر سکریننگ ممکن نہ ہوسکی۔

حیا فاطمہ کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں سکریننگ ممکن نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ان فلموں کی یوٹیوب کے ذریعے آن لائن براڈ کاسٹ شروع کردی ہے۔

آپ بھی اس فیسٹیول کی ساری فلمیں یوٹیوب پر اس اڈریس پر دیکھ سکتے ہیں۔

اس فیسٹیول کا نام بھی ‘چلتا پھرتا’ اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ اس میں منتظمین خود فلمیں  دکھانے لوگوں کے پاس شہر شہر جاتے ہیں (کورونا وائرس کی وجہ سے فی الحال شہر شہر جانے کی بجائے یوٹیوب پر مفت دکھاتے ہیں)۔

لوگوں تک اپنی فلمیں پہنچانے کے حوالے سے حیا فاطمہ کا کہنا ہے کہ ٹی وی چینلز ہمارے ملک کے ایشوز کو صحیح طرح سے سمجھنے اور سمجھانے میں ناکام ہو گئے ہیں کیوںکہ لوگوں میں اپنے مسائل سمجھنے کی پیاس ہے اور وہ چاہتے ہے کہ بغیر سنسرشپ کے ان تک صحیح معلومات پہنچائی جائیں۔ ‘لوگوں کی یہ ضرورت ڈاکومنٹری کے زریعے ہی  پوری ہوسکتی ہے کیوں کہ اس میں فلم میکرز آزاد ہوتے ہیں اور ان پر کسی قسم کی ادارہ جاتی قدغنیں نہیں ہوتیں’ حیا فاطمہ نے خیال ظاہر کیا۔

فلم میکرز بڑے نازک مزاج ہوتے ہیں اور جو ایشوز ان کے دل پر اثر کرتے ہیں ان ہی پر ڈاکومنٹریز بناتے ہیں، جیسے ہزارہ کمیونٹی کے مسائل، خواجہ سراؤں کی زندگی یا بم ڈسپوزل سکواڈ کی خطروں والی زندگی اور ان جیسے دیگر مسائل پر تفصیلآ بحث کرتے ہیں۔

حیا فاطمہ کا کہنا ہے کہ گوروں کے مقابلے میں ہماری ڈاکومنٹری فلموں میں مسائل کا احاطہ زیادہ باریک بینی سے کیا جاتا ہے جس میں ناظرین کو سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ خود سمجھ جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہماری لوکل ڈاکومنٹریز بڑی انٹرسٹنگ ہوتی ہیں اور کسی بھی پہلو سے فکشن فلم سے کم نہیں ہوتیں۔

‘پچھلے 10 سالوں میں ڈاکومنٹری کا فن اور ذوق بڑھ گیا ہے اور پہلے کی نسبت بہت سارے لوگ ڈاکومنٹریز پروڈیوس کر رہے ہیں۔ ہم پاکستانی پروڈوسرز زیادہ تر فیچر ڈاکومنٹریز بناتے ہیں جس کا دورانیہ ایک گھنٹہ سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ ہماری چھوٹی سی چھوٹی ڈاکومنٹری بھی 25 منٹ سے  کم نہیں ہوتی جس کی سب سے بڑی وجہ معاملے کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

ڈاکومنٹری کے فن کے بڑھاوے کی اس سے زیادہ اور دلیل کیا ہوگی کہ سنہ 2010 اور 2016 میں پاکستانی فلم میکرز نے اسکر ایوارڈز جیتیں۔ اس کے بعد ایک اور ڈاکومینٹری   Arms – with – faith جو خیبر پختونخوا کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے حوالے سے بنی تھی، نے ایمی ایورڈ جیتا جو بہت نامی گرامی ایوارڈ ہے۔ اس طرح اور بہت ساری ڈاکومنٹریز ہے جن کی کو دنیا بھر میں بہت پزیرائی ملی۔

چلتا پھرتا ڈاکومنٹری فیسٹیول کی منتظم حیا فاطمہ کہتی ہیں ڈاکو منٹری میں فلم میکر ہر قسم کے قدغنوں سے آزاد ہوتے ہیں

حیا فاطمہ نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان میں ایسا ادارہ بنے جو ڈاکومنٹریز بنانے والوں کو فنڈز فراہم کرے جس سے پاکستان میں ڈاکومنٹری کے فن کو مزید ترویج ملے گی۔

انھوں نے کہا کہ چلتا پھرتا ڈاکومنٹری فیسٹول کو آن لان بڑی پزیرائی مل رہی ہیں اور بہت بڑی تعداد میں لوگ یوٹیوب پر لاگ ان ہو کر ان ڈاکومنٹریز کو دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بلکل مفت ہے اس کے دیکھنے پر کسی قسم کا ٹکٹ نہیں ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button