اداکارہ عائشہ خان کا شہرت سے تنہائی تک کا سفر

اسد اللہ
آج صبح ایک افسوسناک خبر نے دل کو افسردہ کر دیا، پاکستان کی معروف سینئر اداکارہ، عائشہ خان، کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں اپنے فلیٹ سے مردہ حالت میں برآمد ہوئیں۔ وہ تنہا رہتی تھیں۔ ان کی لاش سات دن پرانی تھی۔ پڑوسیوں نے فلیٹ سے آنے والی بدبو محسوس کی، پولیس کو اطلاع دی، تالا توڑا گیا، اور تنہائی میں گزرنے والی زندگی کا آخری باب بے آواز ختم ہو گیا۔
یہ وہی عائشہ تھیں جن کی آنکھوں میں کیمرے کی روشنی جھلکتی تھی، جو 70 اور 80 کی دہائی کے کلاسک اردو ڈراموں کی جان تھیں۔ "افشاں”، "عروسہ”، "فیملی 93″، "مہندی”، "نقاب زن”، "بھروسہ پیار تیرا”، اور "بساط دل” جیسے مشہور ڈرامے ان کی فنکاری کی پہچان بنے۔ لیکن اس فنکارہ کے ساتھ جو ہوا، وہ محض انفرادی المیہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی بے حسی کی کہانی ہے۔
کیا یہ وہی قوم ہے جو اپنے فنکاروں کی تعریفوں میں رطب اللسان رہتی ہے؟ جو ان کے مکالمے دہراتی ہے، اور ان کی موجودگی کو کہانی کا دل سمجھتی ہے؟ پھر وہی فنکار، جب اپنی عمر کے آخری دنوں میں زندگی کی روشنی سے دور ہو جائیں، تو ان کا حال تک کوئی نہ پوچھے؟ کوئی بیٹا، بیٹی، دوست، ہمسایہ یا رشتہ دار ان کی خیریت جاننے نہ آئے؟ یہ تنہائی صرف عائشہ خان کی نہیں، یہ ہمارے رویوں، ہماری ترجیحات اور ہماری بےرخی کا عکس ہے۔
عائشہ خان کی زندگی کئی پہلوؤں سے متاثر کن تھی۔ وہ 22 اگست 1948ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی، اور پی ٹی وی کے سنہری دور میں اپنی اداکاری سے گھر گھر جانی گئیں۔ ان کی چھوٹی بہن خالدہ ریاست بھی ایک مشہور اداکارہ تھیں۔ دونوں بہنوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کی اسکرین پر کئی لازوال کردار ادا کیے۔
عائشہ خان نے کئی یادگار ڈراموں اور سیریلز میں کام کیا، "شام سے پہلے”، "نقب زن”، "بندھن”، "دارارین”، "سائبان”، اور "ٹیپو سلطان” جیسے نام آج بھی کلاسک مانے جاتے ہیں۔ وہ راجو بن گیا جینٹلمین اور فاطمہ جیسی فلموں میں بھی جلوہ گر ہوئیں۔ ان کے کرداروں میں ماں کی محبت، عورت کی خودمختاری، دکھوں کی چپ، اور جذبات کی گہرائی تھی۔
ان کے چند نمایاں ڈراموں میں:
- خدا میرا بھی ہے — ماہ گل کا باوقار کردار، جو معاشرتی جبر کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔
- من مائل — خودمختار اور مضبوط جینا کی تصویر۔
- منزل — جدوجہد اور صبر کی داستان۔
2018 میں عائشہ خان نے شادی کے بعد شوبز کو خیرباد کہا۔ ان کا ریٹائر ہونا ایک خاموش الوداع تھا، اور اب ان کی موت بھی اسی خاموشی میں لپٹی رہی۔
ہم نے وحید مراد جیسے فلمی ہیرو کو تنہا اور نظرانداز ہوتے دیکھا، طلعت حسین جیسے عظیم فنکار کو خاموشی سے منظر سے غائب ہوتے دیکھا، راشد ڈار، خالد بٹ، ناہید انصاری جیسے درجنوں فنکاروں کو کبھی مالی پریشانی میں، کبھی بیماری میں، اور اکثر اوقات معاشرتی تنہائی میں مبتلا دیکھا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم فن کو پسند کرتے ہیں، مگر فنکار کو نہیں۔ ہمیں کہانیاں یاد رہتی ہیں، مگر کہانی کہنے والے چہرے بھول جاتے ہیں۔ ہم ان کو صرف اسکرین تک محدود رکھتے ہیں، ان کی زندگیوں میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فنکار بڑھاپے، بیماری اور تنہائی کا شکار ہو کر گمنامی میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں — جیسے کہ وحید مراد، طلعت حسین، یا اب عائشہ خان۔
بطور قوم ہمیں سوچنا ہوگا کہ آیا ہمارے رویے ان لوگوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے خواب، وقت، اور جذبات ہم پر نچھاور کیے؟ کیا ہمیں صرف ان کی زندگی کی کہانیوں سے دلچسپی ہے، یا ان کی اپنی زندگیوں سے بھی کچھ لینا دینا ہے؟
اگر ہم اب بھی نہ جاگے، تو کل کوئی اور عائشہ خان، کوئی اور فنکار، اسی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔ وقت ہے کہ ہم ان لوگوں کو سراہے جو ہماری اسکرینوں کو جگمگاتے رہے — ان کے ساتھ جُڑیں، ان کا حال پوچھیں، اور ان کی زندگی میں اپنی قدر کے نقوش چھوڑیں، نہ کہ صرف موت پر تعزیت۔
عائشہ خان کی خاموش رخصتی، ہمارے ضمیر کے لیے ایک پکار ہے۔ کیا ہم سننے کو تیار ہیں؟