خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات مالی مشکلات کا شکار کیوں؟
آفتاب مہمند
خیبر پختونخوا کی آدھی سے زیادہ سرکاری جامعات کا مستقبل میں دیوالیہ ہو جانے کے خدشات بڑھ گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبے کی 34 سرکاری جامعات میں سے 7 جامعات نے رواں سال اپنے بجٹ کا آغاز ہی خسارے سے کیا ہے جس میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی پشاور سر فہرست ہے۔ اسکا خسارہ 977 ملین روپے ہے۔ دوسرے نمبر پر گومل یونیورسٹی ہے جسکا خسارہ 434 ملین روپے ہے جبکہ تیسرے نمبر پر پشاور کی زرعی یونیورسٹی ہے جس کا خسارہ 187 ملین روپے ہے۔ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کا خسارہ 17 ملین روپے تک ہے۔ خیبر پختونخوا کے تمام جامعات کا مجموعی طور پر خسارہ اس وقت 4 ارب روپے تک ہے۔
جامعات کی مالی مشکلات یوں رہنے کی صورت میں رواں مالی سال کے آخر تک صوبے کی 34 یونیورسٹیوں میں سے 20 یونیورسٹیاں خسارے کا شکار ہو جانے کا خدشہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات کو سالانہ تقریبا 10 ارب روپے دینے ہوتے ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے نہ ملنے کے برابر ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بھی 2021 میں 2 ارب روپے دینے کے اعلان کے باوجود اب تک پورے پیسے نہیں دیئے۔ اسی طرح 2022 میں 4 ارب روپے اور اس سال صوبائی حکومت کی جانب سے 3.2 ارب روپے دینے اعلانات کے باوجود اب تک مذکورہ رقم فراہم نہیں کی جاسکی جسکے باعث جامعات کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اس وقت 21 یونیورسٹیاں مخلوط یعنی طلبا و طالبات پر مشتمل ہیں جبکہ 3 صرف خواتین کیلئے ہیں۔ 4 انجینئرنگ، ایگریکلچر کی 3 یونیورسٹیاں ، میڈیکل اور مینجمنٹ سائنسز کی ایک ایک یونیورسٹی ہے۔ جامعات میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 77 ہزار سے زائد طلبا اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔
صوبے کی جامعات کی مالی مشکلات کے حوالے سے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن یعنی فپواسا کے صوبائی صدر پروفیسر ڈاکٹر فیروز شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ ماضی میں خود جامعات کے ذمہ داروں سے بڑی غلطی ہوئی کہ انہوں نے پنشن فنڈز کیلئے کوئی پراپر طریقہ کار نہیں اپنایا۔ اب جہاں ہزاروں ملازمین ریٹائرڈ ہو چکے ہیں انکے پنشن کا سارا بوجھ جامعات ہی پر آن پڑا لہذا جامعات کبھی ادھر اور کبھی ادھر سے فنڈز بمشکل ایڈجسٹ کرکے ملازمین کو پنشن ادا کررہی ہیں۔
صوبے میں حکومتوں نے سیاسی پوائنٹس سکورنگ کیلئے جامعات بنائے جن میں سے کئی جامعات کیلئے فزیبیلیٹی رپورٹس پر ہوم ورک ہی نہیں کیا گیا اور نہ وہاں کی آبادی کو دیکھا گیا۔ پھر بھرتیاں بھی سیاسی بنیادوں پر کی گئیں۔
صوبے میں اتنی بڑی تعداد میں جامعات بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ سال 2016 میں جب مالی مشکلات بڑھ گئے تو حکومتی ہدایات پر 1300 سپورٹنگ سٹاف کو نکالا گیا جسمیں 10 سے 15 سال تک کنٹریکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ بھی شامل تھے۔ روزگار دینے کی بجائے الٹا لوگوں کو فارغ کیا گیا اور سارا بوجھ موجودہ سپورٹنگ سٹاف پر ڈال دیا گیا۔
ڈاکٹر فیروز شاہ کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر صوبے کی جامعات 45 سے لیکر 60 فیصد تک فنڈز خود جنریٹ کرتی ہے اور 30 فیصد تک بجٹ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیجانب سے ملنا ہے تاہم خود ایچ ای سی کو پہلے 120 ارب کا سالانہ گرانٹ ملتا تھا لیکن وفاق نے اس پر کٹ لگایا اور اب انکو آدھا مل رہا ہے ۔ ایچ ای سی کے بجٹ پر کٹ لگا کر انکے ذمے جو جامعات کی سپورٹ تھی وہ بھی شدید متاثر ہوگئی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا میں جامعات کو سپورٹ کرنا اب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذمے بھی بنتا ہے۔ ایسے میں جب خیبر پختونخوا کے ذمہ داروں سے بات کی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ یونیورسٹیز تو اٹانامس باڈیز ہیں لہذا صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں کیجانب سے سپورٹ فراہم نہیں کیا جا رہا۔
ایچ ای سی ایک طرف صوبے میں جامعات کے کیمپسز کھلوانے کا کہتی رہی تو دوسری طرف مالی مشکلات کے باعث کوہاٹ میں انجینئرنگ یونیورسٹی کا کیمپس بند کرنا پڑا۔ اب سوات میں بغیر کسی مشاورت کے یونیورسٹی کی تعمیر کی کیا ضرورت جہاں اس کیلئے قواعد و ضوابط بھی نہیں بنائے گئے ہیں۔
فیروز شاہ نے بتایا کہ جامعات کے مختلف شعبوں میں حکومتی پابندی کے باعث طلبہ کی نشستیں بھی نہیں بڑھا سکتے۔ یہ حل نہیں ہے کہ فیسوں میں اضافہ کرکے سارا بوجھ عوام ہی پر ڈالا جائے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ حکومت نے پرائیویٹ جامعات کو کھلی چھوٹ دی ہے وہاں بڑی بڑی فیسیں لی جاتی ہیں، پڑھائی اور نتائج ایک مذاق ہے۔ نجی جامعات تو محض ایک کاروبار بن چکا ہے۔ دوسری طرف سرکاری جامعات پر کئی پابندیاں عائد ہیں۔
حکومت کیجانب سے جامعات کو مالی فوائد پہنچانے کیلئے کوئی میگا پراجیکٹس شروع نہیں کیا گیا۔ جامعات تو تجاویز دینے، مشاورت اور عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ حکومتی ہدایات پر ایک طرف سپورٹنگ سٹاف کو فارغ کیا گیا تو دوسری کئی سالوں سے جامعات میں اساتذہ کی بھرتیوں اور پروموشنز پر پابندی عائد ہے جبکہ گزشتہ 10 سالوں کے دوران طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو چکا۔ جیسا کہ کئی نئے کورسز شروع کئے گئ۔ اسی طرح ایم فل اور پی ایچ ڈیز کا بھی آغاز کیا گیا۔ ایک طرف زیادہ پڑھائی تو دوسری طرف موجودہ سپورٹنگ سٹاف کو بھی سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ محدود وسائل کے باوجود ریسرچ کیساتھ ساتھ لیب معاملات کو بھی خود دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر فیروز شاہ کہتے ہیں کہ جہاں یہ بات ہے کہ سرکاری جامعات فنڈز جنریٹ نہیں کر سکتی تو اساتذہ کا کام فنڈز جنریٹ کرنا نہیں ان سے بچوں کی پڑھائی کا رزلٹ مانگا جائے۔ خیبر پختونخوا کے جامعات سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات آج دنیا میں ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ یہ کوئی حل نہیں کہ سرکاری جامعات کو پرائیوٹائیز کیا جائے پھر تو مڈل کلاس کا طبقہ بھی اخراجات برداشت نہ کرکے تعلیم سے محروم ہو جائے گا۔ اسی طرح تعلیم کا معیار بھی گر کر محض ایک کاروبار بن جائے گا۔ نئے جامعات تعمیر کرنے کی بجائے پرانے جامعات میں طلبہ کی سیٹس بڑھانے کیساتھ ساتھ اساتذہ کی تعداد بڑھائی جاتی تو آج مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
ڈاکٹر فیروز شاہ کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح اور بھی کئی وجوہات ہیں جسکے باعث خیبر پختونخوا کی جامعات خسارے کیطرف بڑھ رہی ہیں۔ چائنہ جیسے ممالک میں تعلیم انوسٹمنٹ کیلئے دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اب کاروبار بن گیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کا تعلیمی بجٹ یعنی سالانہ جی ڈی پی ہم سے زیادہ ہے جبکہ یہاں مختص کردہ بجٹ بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں یہ بھی ایک حل ہے کہ جامعات کی تعداد بالکل بھی نہ بڑھائی جائے۔ صوبے کی جامعات پر عائد پابندیاں ہٹاکر طلبہ کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرکے فیسوں کو کم کیا جائے۔ تعداد بڑھانے سے زیادہ سے زیادہ فنڈز جنریٹ ہونگی اور جامعات کی مشکلات میں بھی کمی آئے گی۔ اسی طرح تعلیم کی شرح میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔
یاد رہے کہ صوبائی نگران وزیر برائے اعلی تعلیم ڈاکٹر قاسم جان نے گزشتہ دنوں فپواسا خیبر پختونخوا کے ذمہ داروں کیساتھ ایک تفصیلی ملاقات میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ صوبے کے تمام سرکاری جامعات کے مالی مشکلات و دیگر ضروری ایشوز پر وفاقی حکومت سے جلد تفصیلی بات چیت کریں گے۔