قبائلی اضلاع میں 74 فیصد سے زیادہ لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں: سروے رپورٹ
آفتاب مہمند
ملکی بڑھتی ہوئی آبادی، غربت اور سہولیات کے عدم فقدان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں 2.9 میلین لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر دیا۔ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ یعنی 74.4 فیصد لڑکیاں قبائلی اضلاع میں اسکولوں سے باہر ہیں۔ صوبے میں اگر مجموعی تعداد کی بات کیجائے تو خیبر پختونخوا میں 47 لاکھ تک بچے تعلیم حاصل نہیں کر پارہے۔ آبادی اور غربت کی شرح پر قابو نہ پانے کی صورت میں مستقبل میں تعلیم سے محروم لڑکیوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
اس بات کا انکشاف خیبر پختونخوا کی سول سوسائٹی نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت حالیہ ایک سروے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کیا ہے۔ سول سوسائٹی کے مطابق جہاں لڑکیوں کا سکول نہ جانے کا تعلق ہے تو مجموعی طور پر ملک بھر میں 23 میلین بچوں سے میں 64 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر پارہی۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے
سماجی کارکن قمر نسیم نے بات چیت کرتے ہوئے ٹی این این کو بتایا کہ لڑکیوں کا تعلیم سے محروم ہونے کی بھی کئی وجوہات ہیں جیسا ارلی میرج، ٹرانسپورٹ کی سہولت، عدم تحفظ، اساتذہ کی کمی، تعلیمی اداروں کی کمی، تعلیمی شعبے کیلئے کم بجٹ رکھنا ودیگر کئی معاشرتی مجبوریاں۔
قمر نسیم کہتے ہیں کہ یونیسف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 21 فیصد لڑکیوں کا 18 سال سے کم عمر میں شادیاں ہو جاتی ہیں اسی طرح ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 23 فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں کیجاتی ہیں۔ ظاہری بات ہے جب لڑکیوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں تو آگے وہ نہیں پڑھ سکتی۔ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم اور حکومت خیبر پختونخوا کیجانب سے ڈبل شفٹ کلاسز و دیگر اقدامات کے باعث تعلیمی شعبے میں بہتری ضرور آئی ہے۔ اسی طرح گزشتہ 4 سال کے دوران صوبے میں تعلیم پر جتنا بجٹ خرچ ہوا ان میں سے 70 فیصد لڑکیوں اور باقی 30 فیصد لڑکوں کی تعلیم پر خرچ ہوا۔
لیکن ابھی بھی بہت کام کرنا باقی ہے جیساکہ صوبے میں مجموعی طور پر پندرہ ہزار مزید سکول بنانے کی ضرورت ہے اور وسائل کی کمی کے باعث ان سکولوں کو بنانے میں 50 سال لگیں گے۔
قمر نسیم کہتے ہیں کہ پاکستان نے عالمی سطح پر اپنے جی ڈی پی کا چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن پاکستان موجودہ وقت میں اپنی جی ڈی پی کا دو اعشاریہ آٹھ فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جو کہ ہمسایہ ممالک میں سب سے کم ہے۔ اگر تعلیمی شرح کو بڑھانا ہے تو اسکے لئے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا فارمولہ ایک بہترین حل ہے جس طرح سندھ حکومت نے کیا ہوا ہے۔
ساتھ ساتھ حکومت کو خیبر پختونخوا اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم میں ماہرین تعلیم کو شامل کرنا چاہئیے۔ یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے دیکھا جائے آج کل جائیدادیں مہنگی ہونے کے باعث عوام حکومتوں کو زمین وقف نہیں کر رہی اسکے لئے حکومتوں نے خود اقدامات لینے ہونگے۔
اسی طرح سیاسی جماعتوں اور آنے والی حکومت کو لڑکیوں کی تعلیم اور صنفی برابری کو ترجیحاتی موضوعات کے طور پر سامنے لیکر آنا ہوگا جبکہ حکومت اس حوالے سے قومی اور صوبائی وعدوں کو ترجیحاتی بنیادوں پر حل کرنے کا عہد کرکے عملی اقدامات بھی کریں۔
قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن آمنہ آفریدی کہتی ہے کہ سب سے زیادہ تو قبائلی اضلاع میں یعنی 74 فیصد بچیاں تعلیم سے محروم ہو رہی ہیں لہذا آنے والے انتخابات کے بعد قبائلی اضلاع سمیت دیگر حصوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو درپیش مسائل پر سیر حاصل بحث اور انکا حل ڈھونڈنے کا ایک سنہری موقع ہے اسکے لئے عملا اقدامات میں بطور سماجی کارکن وہ حکومت کی بھرپور مدد کرنے کو تیار ہیں۔
ایک اور سماجی کارکن علیزا نے بات چیت کے دوران ٹی این این کو بتایا کہ کلائیمیٹ چینج کے باعث بھی آجکل لڑکیوں کی تعلیم پر برا اثر پڑ رہا ہے جیساکہ گزشتہ سال سیلاب کے آنے کے بعد کئی تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح بے وقت بارشوں اور سیلابوں کے باعث تو سب سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہو جاتی ہیں جیساکہ وہ ایسے حالات میں تعلیم چھوڑ جاتی ہیں۔ ایسے میں ہم نے آنے والے دنوں میں کلائیمیٹ چینج کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی نمٹ کر تعلیمی اداروں کو بچانا ہوگا۔
دور دراز علاقوں میں لڑکیوں کو سکول جانے کیلئے ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو دستیاب نہیں اسلئے وہ پڑھنے سے محروم ہو جاتی ہیں۔ صوبے میں اگر ڈراپ آوٹ دیکھا جائے تو 5 کلاس کے بعد 50 فیصد سے زائد لڑکیاں تعلیم کے حصول سے محروم ہو رہی ہیں۔ میٹرک یا اس سے آگے تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی شرح 30 فیصد سے بھی کم ہو کر رہ جاتی ہے۔
علیزا کہتی ہے کہ علاقائی روایات، تحصیل سرکاری سکولوں کا معیار اچھا نہ ہونا جیسے وجوہات بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ضرور ہے۔ حکومت نے اگر لڑکیوں کی تعلیم کو بہتر بنانا ہے اور شرح میں اضافہ کرنا ہے تو سرکاری سکولوں میں تعلیم کے معیار اور سہولیات پر بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ سرکاری تعلیمی اداروں پر حکومت خرچہ تو کر رہی ہے لیکن معیار کافی کمزور ہے۔ صوبے کے اکثریت والدین بچیوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھا نہیں سکتے۔ سول سوسائٹی، میڈیا، سیاست دانوں اور حکومت نے ملکر صنفی مساوات پر مبنی معاشرہ تشکیل پانا ہوگا۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے موجودہ وسائل میں اضافہ کرنا اور اسی طرح ان وسائل کے بہترین استعمال کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
دوسری جانب ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر لڑکیوں کی تعلیمی شرح 43 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ قبائلی اضلاع میں دہشتگردی کے باعث جہاں درجنوں تعلیمی اداروں کو اڑایا جا چکا ہے تو ان میں اکثریت لڑکیوں کے سکولز کی ہے یہی تو وجہ ہے کہ وہاں لڑکیوں کا اسکولوں سے باہر رہ جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 32 ملیئن سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں لڑکیوں کی شرح 60 فیصد سے زائد ہے۔ ایسے اور بھی کئی رپورٹس آچکی ہیں جن میں لڑکیوں کو نہ پڑھانے پر تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق والدین کو لڑکیوں کو پڑھانے کیلئے ایک ملک گیر آگاہی مہم کیساتھ ساتھ عملاً اقدامات لینے کی ضرورت ہے تاکہ لڑکیاں بھی پڑھ کر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔