"ایک خواجہ سرا کی وجہ سے ہمارے سکول کا ڈسپلن خراب ہورہا ہے”
خالدہ نیاز
خیبرپختونخوا کی پہلی خواجہ سرا آرجے صوبیا خان نے بی اے کی ڈگری حاصل کرلی۔ صوبیا خان نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس میں بی اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کرلیا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران صوبیا خان نے بتایا کہ انکو بچپن سے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور یہی وجہ ہے آج انہوں نے بی اے کی ڈگری حاصل کرلی۔ مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو یہ معاشرہ قبول نہیں کرتا اور تعلیمی اداروں میں بھی انکے ساتھ اچھا رویہ روا نہیں رکھا جاتا، نہ ہی انکو لڑکیاں قبول کرتی ہیں اور نہ ہی لڑکے۔
"جب میرا رول نمبر آیا تو مجھے لڑکیوں کے سکول میں پیپرز دینا تھے، جب میں وہاں امتحان دینے گئی تو کچھ لڑکیوں نے اس بات پر تنقید کی کہ ایک خواجہ سرا کے ساتھ وہ اکٹھے پیپر نہیں دیں گی، یہ سن کر میرے اساتذہ بھی حیران رہ گئے اور کشمکش میں پڑگئے کہ اب کریں تو کیا کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے پیپر دینا ہے چاہے مجھے جہاں بھی بٹھا دیا جائے مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا، پھر انہوں نے مجھے فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیا۔ مشکلات بہت زیادہ سامنے آئی ہے میں نے لوگوں کی باتیں سنی ہے کہ یہ خواجہ سرا ہے ہم اس کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے لیکن میں نے لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں کی اور آگے بڑھتی گئی”۔ صوبیا خان نے بتایا۔
خواجہ سراؤں کے لیے الگ سکولز کیوں نہیں ہونے چاہئے؟
کیا خواجہ سراؤں کے لیے الگ سکولز ہونے چاہئے یا انکو لڑکیوں اور لڑکوں کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دینا چاہئے اس حوالے سے صوبیا خان نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے الگ سکولز نہیں ہونے چاہئے کیونکہ اگر علیحدہ سکولز ہوں گے تو لوگ سمجھیں گے کہ یہ الگ لوگ ہیں میں چاہتی ہوں کہ خواجہ سراؤں کو معاشرہ ویسے ہی قبول کریں جس طرح مردوں اور عورتوں کو قبول کیا ہے۔ پرائیویٹ سکولز میں لڑکا اور لڑکی ایک ڈیسک پربیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں تو خواجہ سرا کیوں انکے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ کیا خواجہ سراء خوفناک ہوتے ہیں یا وہ انسان نہیں ہوتے؟
صوبیا خان نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ خواجہ سراء لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ایک ہی سکول میں پڑھے اس سے یہ ہوگا کہ نوجوان نسل خواجہ سراؤں سے نفرت کرنا چھوڑ دے گی انکے ذہنوں میں خواجہ سراؤں ست متعلق جو بھی غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوجائے گی اور یوں خواجہ سراؤں کو معاشرے میں وہ عزت ملنا شروع ہوجائے گی جس کے وہ حقدار ہیں۔
خواجہ سرا کی وجہ سے سکول کا ڈسپلن خراب ہورہا ہے
صوبیا خان نے کہا کہ انہوں نے آٹھویں تک تعلیم بہنوں کے ساتھ ایک سکول میں حاصل کی ہے جہاں انکی بہنیں انکو سپورٹ کرتی تھی لیکن اس کے بعد جب وہ ہائی سکول گئی جو ایک لڑکوں کا تھا تو وہاں انکو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ "میں جب اسمبلی کے لیے نکلتی تھی تو وہاں لڑکے میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے تھے، کوئی مجھے دھکے دیتا تھا، کوئی کہتا پیچھے چلی جاو، میرے ڈیسک پر جو لڑکے میرے ساتھ بیٹھے تھے وہ بھی چھیڑ چھاڑ کرتے اور مجھے پڑھنے نہیں دیتے تھے، وہ مجھے کہتے تم ہیجڑے ہو۔ میرے اساتذہ نے بھی کئی بار پرنسپل سے بات کی تھی کہ اس ایک خواجہ سرا کی وجہ سے ہمارے سکول کا ڈسپلن خراب ہورہا ہے لہذا اس کو سکول سے نکال دیا جائے، جب مجھے اس بات کا پتی چلا تو مجھے بہت افسوس ہوا تاہم میرے والدین نے مجھے ہمیشہ سے بہت سپورٹ کیا ہے، وہ پرنسپل کے پاس گئے اور کہا کہ یہ یہی پڑھے گا، میں نے میٹرک بہت مشکلات کے بعد پاس کیا”۔ صوبیا خان نے کہا۔
صوبیا خان کا کہنا تھا کہ ایف اے لیول میں بھی جب وہ کالج جاتی تھی تو وہاں بھی انکو مشکلات کا سامنا ہوا۔ تب میں جوان ہوگئی تھی اپنا خیال بھی رکھ رہی تھی تو خوبصورت دکھتی تھی جس کی وجہ سے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا جانے لگا تھا۔
ایف کے بعد صوبیا خان یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہ رہی تھی تاہم انکو داخلہ نہ مل سکا لیکن وہ انہوں نے ہمت نہ ہاری کیونکہ انکو معلوم ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا اور تعلیم کی وجہ سے انسان ہر پلیٹ فارم پر جاکر آواز بلند کرسکتا ہے۔ جب انکو پتہ چلا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے خواجہ سراؤں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے تو انہوں نے خوشی خوشی وہاں داخلہ لے لیا۔
تم خواجہ سرا ہو پڑھ کرکیا کروں گی
انہوں نے کہا کہ جب کتابیں لینے جاتی تھی تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے کہ تم خواجہ سرا ہو پڑھ کرکیا کروں گی لیکن انہوں نے کسی کی پروا نہیں کی اور تعلیم کو جاری رکھا۔
صوبیا خان اپنا تعلیمی سلسلہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں اور انکا ارادہ ہے پشتو میں ماسٹر کریں تاکہ وہ تاریخ کو جان سکیں اور ساتھ میں خواجہ سراؤں کے لیے بھی آواز اٹھا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تعلیم بہت مشکلات سے حاصل کی تاہم وہ چاہتی ہیں کہ باقی خواجہ سراء جو تعلیم یی روشنی سے منور چاہتے ہیں انہیں ان تکلیفات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے اساتذہ پر زور دیا کہ وہ طالبعلموں کی ذہن سازی کریں اور انکو بتائے کہ دنیا میں دو نہیں تین جنس موجود ہے، مرد، عورت اور خواجہ سراء۔
صوبیا خان نے کہا کہ ہر سیمنار میں کہا جاتا ہے کہ خواجہ سراؤں کو باعزت روزگار دیں گے لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہے، سرکاری ادارے تو چھوڑے پرائیویٹ اداروں میں بھی خواجہ سراؤں کو نوکریاں نہیں دی جاتی۔ انہوں نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے درخواست کی ہے کہ خواجہ سراؤں کو ہر محکمے میں نوکری دی جائے تاکہ وہ ناچ گانا چھوڑ کر باعزت طریقے سے رزق کما سکیں اور معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔