موسم گرما کی چھٹیاں: ‘یوں سمجھ لیں ملک کی آدھی معیشت رک گئی’
ہارون الرشید
خیبر پختونخوا میں پرائمری سطح پر سکولوں میں موسم گرما کی چھٹیاں دی گئی ہیں تاہم پرائیوٹ سکولز انتظامیہ نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر منصوبہ بندی کے تین ماہ تعطیلات کی وجہ سے نہ صرف بچوں کی بڑھائی متاثر ہوگی بلکہ ان کے لیے تعلیمی سال کے اندر سلیبس مکمل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں پرائیوٹ ایجوکیشن نیٹ ورک کے جنرل سیکرٹری انس تکریم کاکا خیل نے بتایا کہ محکمہ تعلیم موسمیاتی تبدیلیوں سے بے خبر اور آنے والے دنوں کے موسم کا حال جانے بغیر انگریز دور 1930ء کے ایجوکیشن کوڈ کے مطابق یکم جون سے چھٹیوں کا اعلان ہر صورت ضروری سمجھتا ہے۔
ان کے مطابق کئی دفعہ فورمز پر ذمہ دار لوگوں کے ساتھ اس مسئلے پر گفت وشنید ہوچکی ہے لیکن حکومت میں نہ مانوں کے مصداق اس سنگین ایشو پر سوچ وفکر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کررہی جبکہ اس حوالے سے اب ہائی کورٹ میں رٹ بھی دائر کردی گئی ہے جو کہ زیرالتواء ہے۔
یاد رہے کہ محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا نے 26 مئی کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے صوبے کے تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی چھٹیوں کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق خیبر پختونخوا کے گرم علاقوں میں پرائمری سکولوں میں آج (یکم جون)سے 31 اگست تک موسم گرما کی تعطیلات شروع ہوچکی ہیں جبکہ گرم علاقوں کے مڈل اور ہائی سکولوں کے 15 جون سے 31 اگست تک چھٹیاں ہوں گی۔ اسی طرح سرمائی علاقوں میں یکم جولائی سے 31 جولائی تک چھٹیاں دی جائیں گی۔
انس تکریم نے بتایا کہ ورکنگ دن سلیبس کے مطابق 240 دن بچوں کو پڑھانا ان کا حق ہے اور یہ حق گرمی اور سردی کی چھٹیوں کے بہانے 75 سال سے ہمارے بچوں سے چھینا جا رہا ہے، انہیں بڑی مشکل سے سال میں 180 دن پڑھائی کے لیے ملتے ہیں جبکہ دوسری طرف سکولوں میں سلیبس کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹڈیز پلان ترتیب دیا جاتا ہے ڈیلی اور ہفتہ وار کے حساب سے مقررہ سکول ٹائمنگ یعنی سات گھنٹوں میں سلیبس مکمل کرنا ہوتا ہے۔
گرمی تعطیلات کے حوالے سے پالیسی تجویز دیتے ہوئے ماہر تعلیم فضل اللہ داﺅدزئی نے کہا کہ جب پرائیویٹ سکولوں کو چھٹیوں کی فیس ادا کرنا قانون کا حصہ ہے تو پھر اسی فیس میں بچوں کے سکول شارٹ ٹائم کے لیے کھولنے کی اجازت دی جائے اور دن کی گرمی شروع ہونے سے پہلے پہلے چھٹی دے کر اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیا جائے۔
اس کے علاوہ سکولوں کو سولرائزیشن کی طرف منتقلی سے بھی گرم موسم سے بچا جاسکتا ہے۔
ان کے مطابق اڑھائی تین ماہ کے لیے مکمل سکول بند ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کے لاکھوں اساتذہ کی تنخواہیں رک جاتی ہیں، لاکھوں چھوٹے چھوٹے دوکاندار لاکھوں رکشہ ڈرائیور اور دیگر ٹرانسپورٹ سے منسلک لوگ بے روز گار ہو جاتے ہیں اگر حقیقت بیان کی جائے تو یوں سمجھ لیں ملک کی آدھی معیشت رک جاتی ہے۔
فضل اللہ داﺅدزئی نے بتایا کہ گرمی کی چھٹیوں کے بارے میں محکمہ موسمیات سے وقتاً فوقتاً روابط قائم کیا جائے اور ہیٹ ویو میں ہی تعطیلات کا اعلان ہونا چاہئے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جون کے مہینے میں گرمی کے پیش نظر کم وقت کے لیے تمام سکول کھولنے کی اجازت دی جائے جبکہ یکم جولائی سے 10 اگست تک چھٹیاں دی جائیں اور 11 اگست سے 31 اگست تک شارٹ ٹائم کے لیے پھر سکول کھولنے کی اجازت دی جائے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک اندازے کے مطابق 33 ہزار سے زائد لڑکے اور لڑکیوں کے سرکاری سکول ہیں جس میں نرسری سے لے کر بارھویں جماعت تک 50 لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح پرائیویٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ نجی سکولوں کی تعداد دس ہزار ہے جس میں 25 لاکھ کے قریب بچے پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ اساتذہ درس وتدریس کے عمل کے ساتھ وابستہ ہیں، گرمی کی چھٹیوں کے باعث بچوں اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد پڑھائی کے عمل سے دور ہو کر گھروں پر بیٹھ جائے گی۔