تعلیم

‘سکول نہ ہونے کی وجہ سے ایک بیٹی تعلیم سے محروم ،دوسری کے لیے فکرمند ہوں’

مصباح الدین اتمانی

باجوڑ کی تحصیل اتمانخیل کے گاؤں حیاتی کے 40 سالہ محمد اقبال اپنی دوسری بیٹی کی تعلیم کے حوالے سے کافی فکرمند ہے کیونکہ ان کی بڑی بیٹی علاقہ میں گرلز مڈل سکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ گئی ہے۔

اس گاؤں کی آبادی 2017  کے مردم شماری کے مطابق آٹھ ہزار چار سو چونسٹھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ محکمہ تعلیم کے مطابق یہ گاؤں ان 265 دیہاتوں میں سے ایک ہے جہاں لڑکیوں کا کوئی مڈل یا پرائمری سکول موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 3000 بچیاں پرائمری کے بعد ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں۔

ان بچیوں میں 13 سالہ آمنہ بھی شامل ہے جس نے دو سال پہلے جب پرائمری کا امتحان دیا تو اس نے  کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ وہ چاہتی تھی کہ مڈل سکول میں داخلہ لے کر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے لیکن گاؤں میں مڈل سکول نہ ہونے کی وجہ سے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ گھر کے آنگن میں چارپائی پر بیٹھی آمنہ نے بتایا کہ بچپن سے تعلیم کا شوق تھا، ”میرے والدین مجھے اعلی تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن وہ بھی میری طرح بے بس تھے، اب والد نے پانچویں جماعت کی کتابیں لا کر دی ہیں، وہ جب شام کو کام سے واپس گھر آ جاتے ہیں تو مجھے پڑھاتے ہیں، میں پرائیویٹ امتحان دے کر اپنے والد کا یہ خواب پورا کروں گی۔”

2017 کی مردم شماری کے مطابق باجوڑ کی آبادی دس لاکھ ترانوے ہزار چھ سو چوراسی افراد پر مشتمل ہے جس میں خواتین کی تعداد نصف یعنی پانچ لاکھ چھتیس ہزار پانچ سو بیس ہے۔ محکمہ تعلیم باجوڑ کی جانب سے جاری دستاویز کے مطابق باجوڑ میں لڑکیوں کا ایک ہائرسیکنڈری سکول، 13 ہائی سکول، 42 مڈل سکول اور 186 پرائمری سکول موجود ہیں۔ ضلع میں لڑکیوں کے لیے گرلز ڈگری کالج کا آغاز ہسپتال کی سرکاری عمارت میں کیا گیا ہے لیکن وہاں پر بھی بی ایس کے صرف دو پروگرامز میں داخلے کی سہولت موجود ہے۔

محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے اعدادوشمارکے مطابق قبائلی اضلاع میں 79 فیصد بچیاں پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں۔ محکمہ کی جانب سے جاری دستاویز میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ 92 فیصد سے زائد قبائلی خواتین لکھ سکتی ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتی ہے۔

آمنہ کے والد قاری محمد اقبال باجوڑ میں لڑکیوں کی کم شرح تعلیم کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی کمی اور حکومت کی عدم دلچسپی قرار دیتے ہے اور یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ باجوڑ میں 99 فیصد والدین بچیوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں لیکن تعلیمی اداروں کی کمی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ باجوڑ کی تحصیل خار میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے زیادہ ہیں اس وجہ سے وہاں زیادہ تر لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں۔

‘میری تین بیٹیاں ہیں؛ پرائمری پاس کرنے کے بعد بڑی بیٹی نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ پورے گاؤں اور ملحقہ علاقوں میں ایک بھی مڈل سکول موجود نہیں، اب میں اپنے کلاس اول اور دوئم میں پڑھنے والی اپنی بیٹیوں کے لیے فکرمند ہوں۔’

محمد اقبال نے بتایا کہ یہاں لوگ معاشی طور پر اتنے مضبوط نہیں کہ وہ اپنی بیٹیاں 11 کلومیٹر دور واقع مڈل سکول میں پڑھنے کے لیے بھیج سکیں، "باجوڑ میں لڑکیوں کی تعلیمی شرح تب بڑھے گی جب یہاں تعلیم کے مواقع بڑھیں گے، اگر حکومت باجوڑ کے ہر گاؤں میں پرائمری، مڈل اور ہائی سکول تعمیر کرے تو لڑکیوں کی تعلیمی شرح لڑکوں سے بھی آگے جا سکتی ہے۔”

محکمہ تعلیم  باجوڑ کی رپورٹ کے مطابق باجوڑ کی 7 تحصیلوں میں سے 6 ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کا ایک بھی ہائرسیکنڈری سکول موجود نہیں ہے۔ تحصیل چمرکنڈ میں لڑکیوں کے لیے کوئی مڈل یا ہائی سکول موجود نہیں ہے۔ تحصیل اتمانخیل میں لڑکیوں کے 2 ہائی سکول، 8 مڈل سکول جبکہ 35 پرائمری سکول ہیں۔ 60 ہزار نفوس پر مشتمل تحصیل نواگئی میں لڑکیوں کا ایک ہائی سکول، تین مڈل سکول جبکہ 11 پرائمری سکول موجود ہیں۔

باجوڑ کی تحصیل خار سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ مریم (فرضی نام) ایم فل اسکالر ہیں اور وہ باجوڑ کے ایک گورنمنٹ ہائی سکول میں سائنس پڑھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں انہوں نے بڑے مشکل حالات میں پڑھائی کی، "میں نویں جماعت میں تھی جب دہشت گردوں نے ہمارے سکول کو بموں سے اڑایا جس کے بعد میں گھر پر ہی پڑھائی کرتی تھی اور آج الحمداللہ میں باجوڑ کی بچیوں کو سائنس کے مضامین پڑھاتی ہوں۔”

مریم کہتی ہیں کہ باجوڑ کی بچیاں باصلاحیت ہیں اور وہ تعلیم سے لگاؤ رکھتی ہیں لیکن زیادہ تر دوردراز علاقوں سے آتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جونہی ان کی عمر تھوڑی بڑھ جاتی ہے وہ سکول کے آنے اور جانے کی وجہ سے تعلیم کو چھوڑ دیتی ہیں۔ مریم کے مطابق ان کے سکول میں بچیوں کی تعداد 400 سے زیادہ ہے، چھٹی جماعت میں 120 سے زائد بچیاں داخل ہیں، کلاس رومز میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر تعلیمی ادارے بنائے جائیں تو یہ بچیاں خودبخود تعلیم کی طرف آئیں گی۔

محکمہ تعلیم کے مطابق 4 سے لے کر 10 سال تک کی عمر کی بچیوں کی تعداد ایک لاکھ انتالیس ہزار نو سو پچاسی ہے جس میں سے بیاسی ہزار ایک سو پینتیس سکولوں سے باہر ہیں۔ باجوڑ میں لڑکیوں کے مزید 210 پرائمری سکولوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح باجوڑ میں خواتین ٹیچرز کی 92 آسامیاں خالی ہیں جبکہ سٹوڈنٹس ٹیچرز ریشو (ایس ٹی آر) کے مطابق مزید 690 اساتذہ بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔

چودہ سالہ سارہ گورنمنٹ ہائی سکول خار میں نویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ سارہ کے مطابق ان کی کلاس میں طالبات کی تعداد 70 سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے پڑھائی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے محلے کی زیادہ تر لڑکیاں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سکول چھوڑ چکی ہیں۔

محکمہ تعلیم باجوڑ کے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر نور ضیاء نے بتایا کہ باجوڑ میں لڑکیوں کے داخلوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے نہ صرف آگاہی سیمینارز منعقد کروائے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں اور سٹاف کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ۲۰۲۱ میں صوبائی حکومت کو درخواست بھی کی ہے لیکن فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے منظوری کے باوجود اس پرآج تک عملی کام نہیں ہوا ہے۔  انہوں نے کہا کہ وہ محدود وسائل اور نامناسب حالات میں دن رات کام کرتے ہیں تاکہ باجوڑ کی بچیوں کو دیگر اضلاع کی بچیوں کے مقابلے میں لا کھڑا کریں۔

تحصیل سلارزئی سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ ریحان زیب ایک سرگرم سماجی کارکن اور نوجوان لیڈر ہے۔ جب لڑکیوں کی کم شرح تعلیم کے حوالے سے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آج سے دس سال پہلے والدین اپنی بچیوں کو پرائمری سے زیادہ تعلیم دلانا مناسب نہیں سمجھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ اب یہ بڑی ہو گئی ہیں تو ان کا پیدل سکول جانا ٹھیک نہیں ہے، لیکن قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اب لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، اب ہر شخص چاہتا ہے کہ اپنی بیٹی کو اعلٰی تعلیم دلائے لیکن تعلیمی ادارے کہاں ہیں؟

ریحان زیب کے مطابق باجوڑ کے زیادہ تر علاقوں میں لڑکیوں کی اعلٰی تعلیم تب ممکن ہے جب کسی کے پاس ذاتی گاڑی ہو، ‘باجوڑ میں ایک بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں سکول ہے اور لڑکیاں نہیں جا رہیں۔’ تحصل سلارزئی کے گورنمنٹ ہائی سکول راغگان کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچیاں کئی کلومیٹر فاصلے طے کر کے یہاں پڑھنے آتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کی بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں لیکن تعلیمی اداروں کی کمی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

خیبر پختونخوا کے نگراں صوبائی وزیر ملک شاہ محمد خان نے قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیمی شرح بہتر بنانے کے حوالے سے  ٹی این این کو بتایا کہ موجودہ صوبائی حکومت تعلیم اور خاص کر لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، انہوں ںے کہا کہ صوبائی حکومت نوجوان نسل کو تعلیم اور دیگر سہولیات کی فراہمی کیلئے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

شاہ محمد نے زیرتعمیر گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج بخاخیل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی تکمیل کے بعد بچیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے بہترین مواقع میسر ہوں گے اور طالبات کو تعلیم کیلئے دوردراز علاقوں تک نہیں جانا پڑے گا بلکہ یہ سہولت انہیں اپنے ہی علاقے میں دستیاب ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت قبائلی اضلاع میں مزید 443 نئے سکول تعمیر کرنے پر کام کر رہی ہے جن میں پرائمری، مڈل اور ہائرسیکنڈری سکول شامل ہیں جو 30 جون 2024 تک مکمل ہو جائیں گے۔

باجوڑ میں لڑکیوں کی کم تعلیمی شرح کے حوالے سے جب ہم نے سب ڈویژن ناواگی کے ناظم اعلی ڈاکٹر خلیل سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک تو باجوڑ میں لڑکیوں کی کم شرح تعلیم کی بنیادی وجہ تعلیمی اداروں کی کمی ہے، دوسری بڑی وجہ ان تعلیمی اداروں میں غیرمقامی سٹاف کی بھرتیاں ہے جو بمشکل ہفتے میں دو تین دن بچوں کو پڑھانے آتی ہے۔

ڈاکٹر خلیل نے بتایا کہ جب میں ناظم اعلی منتخب ہوا تو میری اولین ترجیح لڑکیوں کی تعلیم تھی لیکن بدقسمتی سے ہمیں ترقیاتی فنڈز جاری نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی ترجیحات میں ضم اضلاع کے نوجوانوں کا تعلیم اور روزگار شامل نہیں اس وجہ سے یہاں پھر سے انتہا پسندی نے سر اٹھایا ہے لیکن ہم امن، تعلیم اور روزگار کے فروغ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فیلوشپ پروگرام کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button