خیبر پختونخوا: سیلاب سے متاثرہ سکولوں کی تعمیرنو میں کئی سال لگنے کا خدشہ
ذیشان اعظم کاکاخیل
یہ کہانی صرف پرنسپل ثاقب تنویر کی ہی نہیں بلکہ ان جیسے سینکڑوں سکول سربراہان کی ہے جن کے ساتھ سکول میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد انتہائی حد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔
54 سالہ ثاقب تنویر گزشتہ تین سالوں سے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول مردانہ شور کوٹ ضلع ڈی آئی خان خیبر پختونخوا میں بطور پرنسپل ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں، ابھی 2010 میں آنے والے سیلاب کے باعث ان کے سکول کو پہنچنے والے نقصان کا مکمل طور پر ازالہ ہوا نہیں تھا کہ دوبارہ سیلاب سے سکول کی عمارت بہہ گئی ہے، سکول کی عمارت سڑک سے نیچی ہونے کی وجہ سے سیلاب کی زد میں آیا، 2010 کے سیلاب میں اس سکول کے 2 کمروں کو نقصان پہنچا تھا اور اس بار سیلاب میں سکول کے 8 کمروں میں سے 5 کمرے مکمل تباہ ہو گئے ہیں۔
ثاقب تنویر نے 1994 میں محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی اور گزشتہ 28 سالوں سے مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ کافی محنت اور مشکل سے وہ سکول میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کیونکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تعلیم کی طرف زیادہ رجحان نہ ہونے اور شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے بہت کم والدین اپنے بچوں کو سکول میں داخل کراتے ہیں۔
ثاقب تنویر کے مطابق ڈی آئی خان میں کل 1351 پرائمری سکولز ہیں جن میں 846 طلبہ اور 505 طالبات کے سکول، 201 مڈل سکولوں میں لڑکوں کے 123 جبکہ لڑکیوں کے 78 ہیں، 132 ہائی سکولوں میں 84 لڑکوں اور 48 لڑکیوں کے سکول شامل ہیں، اسی طرح ہائر سینکڈری سکولوں کی تعداد ڈی آئی خان میں 43 ہے جن میں 29 لڑکوں کے اور 14 لڑکیوں کے ہیں، سال 21-2020 میں ڈی آئی خان میں ہائر سکینڈری سکولوں میں 7 ہزار 243 طلباء زیرتعلیم تھے جن میں سے 4992 لڑکے اور 2251 لڑکیاں شامل تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں شرح خواندگی 52 اعشاریہ 2 فیصد ہے، 2017 میں پنچاب میں 58 فیصد اور بلوچستان میں 43 اعشاریہ 58 فیصد جبکہ سندھ میں بھی 54 فیصد تھی۔ 2019 اور 2020 میں شرح خواندگی 43 فیصد تھی جہاں 57 فیصد اور 25 فیصد خواتین شامل تھیں، صوبے کے صرف 5 اضلاع تور غر، ٹانک، ضلع مہمند،کوہستان اور ہنگو میں سیلاب سے پہلے سکول میں طلبہ کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس پر ہم کافی خوش تھے کہ علاقے کے واحد سکول میں اب زیادہ سے زیادہ طلبہ علم کی روشنی حاصل کریں گے، تین سال قبل طلبہ کی تعداد 3 سو تھی جس کو بڑھا کر 5 سو 34 کر دیا لیکن سیلاب کے باعث اب ایک بار پھر اس میں کافی کمی آ گئی ہے، ”ہمارے اور طلبہ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ سیلاب آئے گا اور ہمارے سکول کو بہا کر لے جائے گا۔”
ثاقب تنویر کے مطابق سیلاب کے بعد اب ان کے پاس زیرتعلیم طلبہ کی تعداد کم ہو کر صرف 534 تک رہ گئی ہے، سکول میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر کلاسز تو قائم کی گئی ہیں لیکن ایک کلاس میں 116 سے زائد طلبہ کو پڑھانے پر مجبور ہیں، ”پہلے ایک کلاس میں 50 سے 60 طالب علم زیر تعلیم تھے، سکول میں فرنیچر تو پہلے ہی کم تھا لیکن سیلاب کے بعد اب طلبہ شدید سردی میں بھی زمین پر بیٹھ کر علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں، طلبہ تو طلبہ اساتذہ کے لئے بھی سکول میں بیٹھنے کی جگہ تک موجود نہیں ہے۔”
دوسری جانب گورنمنٹ پرائمری سکول دپ چبک کے پرائمری سکول ہیڈ ٹیچر حافظ محمد کے مطابق خیبر پختونخوا میں سیلاب کو گزرے پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا لیکن یہاں کے سکولوں کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ تاحال نہیں ہو سکا، ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروا ہو یا تحصیل کولاچی یہاں کے ہزاروں بچے سکول کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے خیمہ سکولوں میں شدید سرد موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جہاں واش روم کا کوئی بندوبست ہے نہ ہی صاف پانی کی کوئی سہولت میسر ہے، ڈی آئی خان کے 141 تباہ شدہ مردانہ اور 127 زنانہ سکولوں میں 50 مردانہ اور 20 زنانہ سکولوں کو خیموں میں قائم کیا گیا ہے جن میں پرائمری، ہائی اور ہائر سیکنڈری کی تعداد تفصیلی جاری ہونے والے سروے میں معلوم ہو سکے گا۔
گورنمنٹ پرائمری سکول سیدو ولی کچہ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے 34 سالہ عبدالمجید کا خیال ہے کہ سیلاب میں تباہ ہونے والے سکولوں کی عمارتوں کی تعمیرنو میں سالوں لگنے کا خدشہ ہے، سکول کی عمارت سیلاب میں دریا برد ہونے کی وجہ سے سینکڑوں طلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، ”جب بارش ہوتی ہے تو طلبہ کو مجبوراً چھٹی دینا پڑتی ہے۔”
ماہر تعلیم اور سابق پرنسپل گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 نوشہرہ سیف الرحمان کے مطابق خیبر پختونخوا میں کورونا وباء کے بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوئی ہی تھیں کہ صوبہ کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا جس نے تباہ کن سیلابی صورت اختیار کر لی، خیبر پختونخوا میں ہر سال صرف اگست کے مہینے میں 103 اعشاریہ 3 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جاتی ہے لیکن اس بار یعنی سال 2022 میں 58 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔
نقصانات کا تخمینہ اور حکومت کو فنڈز کی کمی کا سامنا
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں سیلاب کے باعث اربوں روپے کا نقصان ہوا جس کی بحالی پر 162 روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کو اس وقت شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حکومت نے تمام ترقیاتی منصوبوں کا بجٹ بھی کرنٹ بجٹ کو منتقل کر دیا ہے۔
کس ضلع میں کتنے سکولوں تباہ ہوئے؟
محکمہ تعلیم کی دستاویزات کے مطابق خیبر پختونوا کے مختلف اضلاع میں سیلاب کے باعث تباہ ہونے والے 1606 سکولوں میں سے صرف پانچ سکولوں کی معمولی مرمت کی ضرورت ہے جبکہ باقی سکول یا تو مکمل اور یا پھر جزوی طور پر خراب ہو گئے ہیں، ان 1606 سکولوں میں 346 سکول مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جن میں 257 لڑکوں اور 89 لڑکیوں کے سکول شامل ہیں جبکہ 1255 سکولوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے جن میں 825 مردانہ اور 430 زنانہ سکول شامل ہیں۔
سکولوں کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو ضلع ٹانک کے کُل 363 سکولوں میں سے 176 (90 لڑکیوں اور 86 لڑکوں کے)، ڈیرہ اسماعیل خان کے کُل 1223 درسگاہوں میں سے 266 (127 لڑکیوں اور 139 لڑکوں کے)، اپر دیر کے کُل 1222 سکولوں میں سے 151، سوات کے 202 سکولوں میں 135 مردانہ اور 67 زنانہ، نوشہرہ میں 2021 رپورٹ کے مطابق کل 974 سکولز ہیں جن میں 775 پرائمری، 94 ہائی اور 105 ہائر سیکنڈری سکول شامل ہیں، اسی طرح ضلع صوابی میں کل 296 سکولوں میں 48 ہائر، 122 ہائی اور 126 پرائمری سکول قائم ہیں، نوشہرہ اور صوابی میں 50،50 سکولوں کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے۔
اسی طرح اپر چترال میں 53 (13 لڑکیوں اور 40 لڑکوں کے)، چارسدہ میں 25 لڑکوں کے سکول متاثر ہوئے جبکہ کسی زنانہ سکول کو نقصان نہیں پہنچا، اپر اور لوئر کوہستان میں 36 (13 لڑکیوں اور 23 لڑکوں کے)، ہری پور میں لڑکوں کے 26 سکول متاثر ہوئے جبکہ کسی زنانہ سکول کو نقصان نہیں پہنچا، لڑکوں کے سکولوں میں بٹگرام میں 23، مہمند میں 10، خیبر میں چار اور باجوڑ میں تین سکولوں کو نقصان پہنچا۔
محکمہ تعلیم کے زرائع کے مطابق زیادہ تر اضلاع میں تباہ شدہ سکولوں کی تعمیر و مرمت پر کام ابھی تک شروع ہی نہیں ہو سکا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسے علاقوں میں سکول یا تو کھلے آسمان تلے قائم کئے گئے ہیں اور یا پھر وہاں خیمہ لگا کر تعلیمی سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم کے ذرائع کے مطابق فنڈز کی کمی کے باعث سکولوں پر کام شروع کرنے میں مزید ایک سال لگ سکتا ہے کیونکہ ابتدائی سروے تو محکمہ تعلیم کے ایک ادارے ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی نے مکمل کر لیا ہے مگر تفصیلی سروے کرنا ابھی باقی ہے۔
سکولوں کی بحالی اور حکومتی اقدامات
سکولوں کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں جب محکمہ ابتدائی و ثانونی تعلیم خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر حافط محمد ابراہیم سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مکمل اور جزوی تباہ شدہ سکولوں کا ابتدائی سروے مکمل کر لیا گیا ہے، تفصیلی سروے مکمل کرنے میں اب بھی 3 سے 4 مہینے درکار ہوں گے، جہاں جہاں سکولوں کو معمولی نقصان پہنچا تھا وہاں تعلیمی سرگرمیاں بھی بحال کر دی گئی ہیں جبکہ جہاں سکول مکمل تباہ ہوئے تھے وہاں بہت جلد تمعیراتی کام شروع کیا جا رہا ہے، صوبے کے صرف 13 اضلاع میں ابتدائی طور پر 300 کروڑ کی لاگت سے 250 سکولوں کی ازسر نو تعمیر اور بحالی کی جائے گی، یہ فیصلہ وزیر تعلیم شہرام ترکئی کی زیر قیادت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر بہت زیادہ سکول سیلاب میں بہہ جانے کا کہا گیا تھا لیکن اے ایس ڈی اوز (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز)، ڈی ای اوز (ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز) اور ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی کے ذریعے جب سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ 1606 سکولوں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
حافط محمد ابراہیم کا بتانا تھا کہ سکولوں کی تعمیر میں محکمہ تعلیم کے ساتھ مختلف بین الاقوامی تنظمیوں نے بھی مالی تعاون کا اعلان کیا ہے جیسے کہ چارسدہ، سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکی و غیرملکی این جی اوز نے بھی سکولوں کو تعمیر اور مرمت کرنے میں مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ڈائکریکٹر کے مطابق سکولوں کے پاس موجود پی ٹی سی (پیرنٹس ٹیچر کونسل) فنڈز کو ہر سکول اور ہر ضلع کے لئے الگ الگ مقرر کیا جاتا ہے (فنڈز کا تعین متعلقہ ضلع کا ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کرتا ہے)، ان کو بھی تعمیراتی کام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا محکمہ ریلیف کے ایک اہلکار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2010 کے سیلاب میں تباہ شدہ سکولوں اور دوسرے مقامات کو اب تک مکمل طور تعمیر نہیں کیا گیا تھا کہ ایک بار پھر سیلاب آیا اور تباہی مچا دی، کسی سکول کے لئے فنڈز نہ ہونے تو کسی کے لئے اراضی کے حصول میں مشکلات کے باعث ان سکولوں کو تعمیر نہیں کیا جا سکا ہے۔
تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ضلع ڈی آئی خان میں سکولوں کی صورتحال
ڈیرہ اسماعیل خان میں سکولوں کو پہنچنے والے نقصانات اور اب تک بحالی کے کاموں سے متعلق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مسرت بلوچ کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی بھی سکول پر تعمیراتی کام شروع نہیں کیا جا سکا کیونکہ تاحال پریکٹیکل کا پی ون (پی سی ون) ہی تیار کیا گیا ہے جس میں سکولوں کی مرمت اور تعمیرِ نو کا ہی اندازہ لگایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈی آئی خان میں تباہ ہر ایک سکول میں تقریباً 200 کے قریب طالب علم زیرتعلیم تھے جن کو ابھی عارضی ٹینٹ سکولوں کو منتقل کیا گیا ہے۔
مسرت بلوچ کے مطابق سیلاب کے باعث تقریباً ایک ہزار سے زائد طالب علموں کا تعلیمی سلسلہ مکمل طور پر متاثر ہونے کا خدشہ تھا اس لئے ان بچوں کے لئے خیمہ بستی میں سکول قائم کئے گئے تاکہ ان کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔