”سیلاب ہمارا سکول تباہ کر گیا اب مسجد میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں”
عزیز سباؤن
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 190 کلومیٹر دور ضلع قلعہ سیف اللہ کے خسنوب نامی علاقے کے ایک گاؤں کی مسجد کے باہر دھوپ میں بیٹھے بچے سالہاسال سردی و گرمی کی زد میں رہتے ہیں اور ان سے ان کے بچاؤ کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔
گزشتہ سال اگست میں آنے والا سیلاب ان بچوں کے سکول کی عمارت کو اس وقت اپنے ساتھ بہا کر لے گیا جب تیز بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ان کے گاؤں کے قریب پانی کا بند/ڈیم ٹوٹ گیا تھا۔
جماعت چہارم کی طالبہ نازیہ بی بی کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”سیلاب آیا اور ہمارے سکول کو تباہ کر گیا، اب ہم مسجد میں بیٹھ کر سبق پڑھتے ہیں۔”
گورنمنٹ مڈل سکول خسنوب میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دینے والے ادریس کاکڑ نے بتایا کہ رواں برس طلباء کا سلسلہ تعلیم بہت زیادہ متاثر ہوا ہے، پہلے سیلاب ان کے سکول کی عمارت کو مکمل طور پر تباہ کر گیا، پھر گرمی سے وہ پریشان رہے اور اس کے بعد سردی اور ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار رہے، ”سیلاب آیا، بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے ہمیں ڈھیر ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے سکول کی عمارت جلد از جلد دوبارہ تعمیر کی جائے۔”
محکمہ تعلیم کی رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ سسٹم کی ایک رپورٹ کے مطابق بارش اور سیلاب کی وجہ سے متاثر ہونے والے چار ہزار سے زائد سکولوں میں دو ہزار دو سو 79 لڑکوں کے، 1130 لڑکیوں کے اور 174 سکولوں میں مخلوط تعلیمی نظام کے تحت طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
سیکرٹری ایجوکیشن عبدالرؤف بلوچ نے بتایا کہ نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لئے انہوں نے تمام متعلقہ افسران کو احکامات جاری کئے ہیں جو جلد ہی ایک رپورٹ مرتب کر لیں گے، ”جون میں بجٹ پیش ہو گا، ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ایک بڑا حصہ مقرر کر کے دوبارہ پھر سے سیلاب سے متاثر شدہ جتنے بھی سکول تھے ان سب کی بحالی اور تعمیر کا کام جلد از جلد مکمل کروا لیا جائے۔”
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق طلباء کے لئے اس وقت تک کل 43 عارضی سنٹرز قائم کئے گئے ہیں جبکہ مستقبل میں نا صرف سکولوں کی تعمیر نو بلکہ بہتر اور سیلاب کے وقت نقصان سے بچاؤ کیلئے سکولوں کی عمارات کی تعمیر کا کام بھی شروع کریں گے۔