طالبان کا پہلا ہدف خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا ہے
شاہین آفریدی
پشاور یونیورسٹی میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں اور طلباء و طالبات نے طالبان کی جانب سے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی شدید مذمت کی ہے اور اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندیوں نے آنے والی نسلوں کو اندھیروں میں ڈال دیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی جانب سے یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف پشاور یونیورسٹی میں افغان اور مقامی طلبہ کی بڑی تعداد نے مظاہرہ کیا۔ ان طلباء نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق میں نعرے درج تھے۔ انہوں نے طالبان کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، طلباء کا کہنا تھا کہ 21ویں صدی میں طالبان لڑکیوں کے ساتھ صنفی سلوک کر رہے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے پیس اینڈ کنفلکٹ دیپارٹمنٹ کی طالب علم ایمان فراز نے بتایا کہ 1996 سے لیکر 2001 تک طالبان کے پہلے دور میں بھی خواتین کے خلاف ایسے ہی پابندیاں لگائی گئی تھی جس کے بعد آنے والے نسلیں غیر تعلیم یافتہ ہیں اور ابھی بھی وہی دور دہرا رہے ہیں۔
"ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والی نسلیں بغیر تعلیم کے بڑے ہوجائیں گے جن کو آسانی سے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے گا”۔
پشتون سٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر وقاص شینواری کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویہ ہے اور باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان کی نسلوں کو پیچھے کی طرف دکھیل رہے ہیں۔
"ان کی آنے والی نسلیں صرف سالوں تک نہیں بلکہ صدیوں پیچھے چلی جائے گی۔ وہاں ایک جابرانہ نظام رائج کیا گیا ہے جس کے پیچھے کئی سارے عوامل موجود ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر خواتین تعلیم حاصل کرے گی تو وہ ڈاکٹر، نرس، استانی اور ایک قابل عورت بنے گی جوایک نسل آگے لے کر چلے گی”۔
گزشتہ روز طالبان نے لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو باضابطہ طور پر معطل کر دیا تھا جس پر بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ طالبان پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ خواتین کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کریں اور انہیں سیاسی، معاشی اور سماجی معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق دیں۔
شعبہ تاریخ سے وابستہ ایک طالب علم طارق ننگیال نے بتایا کہ ہم عالمی برادری سے طالبان کی جانب سے جابرانہ طرز حکومت کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ افغانستان میں عام شہریوں اور بلخصوص خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کو روکا جاسکے۔
"خواتین کے حقوق کو غصب کرنے سے نا صرف اسلام کی بدنامی ہورہی ہے بلکہ طالبان کے خلاف غم و غصہ کے علاوہ ان سے نفرت بھی بڑھ رہی ہے۔ وہ صنفی تشدد اور منافرت کے انتہاء تک پہنچ چکے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں خواتین پر اتنی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ طالبان کے اس عمل کو دنیا بھر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جبکہ ان کے صفوں کے درمیان بھی تعلیم پر پابندیوں کو منفی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے”۔
دوسری جانب پیس اینڈ کنفلکٹ ڈیپارٹمنٹ کے اور طالب علم شہاب اللہ کے مطابق طالبان نہیں چاہتے کہ ان کے ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھائے اس لیے ان کا پہلا ہدف خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا ہے۔
"اگر خواتین تعلیم حاصل کرے گی تو وہ صاحب علم ہوجائے گی۔ وہ اپنے حقوق سے واقف ہوجائے گی اور پھر ان کو حاصل کرنے کا مطالبہ کرے گی اس خوف کی وجہ سے طالبان نہیں چاہتے کہ لوگ باشعور ہو”۔
دوسری جانب عالمی سطح پر امریکا اور دیگر کئی ممالک نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے طالبان کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
طالبان کے ابتدائی 1996 سے لیکر 2001 دور حکومت میں بھی افغانستان میں خواتین زیادہ تر تعلیم اور کام کے حقوق سے محروم تھیں۔ لیکن اب دوسری بار کئی ممالک نے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کرنے کی شرط رکھی ہے۔
طالبان اگست 2021 میں افغانستان میں برسراقتدار آئے اور اس کے بعد سے مختلف شعبوں میں خواتین کی شرکت پر پابندی لگا دی ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ طالبان کو افغانستان کے لوگوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔