کل کی تین لڑکیاں آج کی تین کامیاب خواتین
رانی عندلیب
خیبر پختونخوا میں پہلے کے مقابلے میں آج کل لڑکیوں کی بڑی تعداد نوکری کرتی ہے لیکن لڑکیاں اب بھی مکمل آزاد نہیں ہیں، یہاں ایک لڑکی کو ڈگری مکمل ہونے بعد نوکری کی اجازت اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ خاندان کے بڑے بزرگوں سے لینا پڑتی ہے۔ لڑکی کی تعلیم کو ایک اچھے رشتے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک لڑکی اپنی ڈگری کو استعمال کرتے ہوئے نوکری کرنا چاہتی ہے اور اپنا کرئیر بنانا چاہتی ہے تو اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لڑکیوں کے عالمی دن کے حوالے سے ہم نے ایسی خواتین سے بات کی ہے جن کو ایک مقام تک پہنچنے کے لیے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑا۔
اس حوالے سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آمنہ پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عام سی لڑکی تھیں، ان کے والد اپنی برادری میں میں کم تعلیم یافتہ تھے لیکن ان کی نوکری تھی، آمنہ کے پانچ بہن بھائی تھے، ان کا نمبر تیسرا تھا، ان کے دو بھائی تھے لیکن وہ بھی ان سے چھوٹے تھے، پانچ بہن بھائیوں کی تعلیم اور گھر کا خرچہ، بمشکل ان کا گزارہ ہوتا تھا لیکن آمنہ کے والد کی خواہش تھی کہ آمنہ بڑی ہو کر وکیل بنے اور وکالت کے یونیفارم میں اسے دیکھیں، ”جب اپنے گھر کے حالات دیکھتی اور سکولوں کا خرچہ تو بڑا دکھ ہوتا اور دل میں سوچتی کہ بڑی ہو کر اپنے گھریلو حالات خود تبدیل کروں گی۔”
انہوں نے بتایا کہ میٹرک کے بعد ان کی امی نے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان کی امی بھی پڑھی لکھی نہیں تھیں اس لیے وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھیں، اکثر والد سے کہتیں کہ لڑکیوں کو پڑھا لکھا کر کیا کرنا ہے کیونکہ یہ تو پرائے گھر کی امانت ہوتی ہیں، دوسری طرف آمنہ کے ماموں چچا بھی لڑکیوں کے تعلیم کے خلاف تھے لیکن آمنہ کے والد اور دادا جان نے آمنہ کو بہت سپورٹ کیا کیونکہ آمنہ کی فیملی میں لڑکیوں نے میٹرک سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی اس لیے پوری فیملی امنہ کے تعلیم کے حق میں نہیں تھی، ان کا ماننا تھا کہ لڑکیوں کے لئے زیادہ تعلیم ضروری نہیں ہے کیوں کہ لڑکیوں کی تو شادی ہو جاتی ہے۔
آمنہ کے ایف اے کرنے کے بعد خاندان والوں نے تھوڑی تھوڑی مخالفت کرنا شروع کی۔ آمنہ نے ایل ایل بی میں داخلہ لینے کے بعد پرائیویٹ سکول میں جاب شروع کی، صبح کے وقت وہ پرائیویٹ سکول میں ٹیچنگ کرتیں اور سیکنڈ ٹائم میں وہ ایل ایل بی کی کلاس لیتی تھیں تاکہ وہ اپنی تعلیم کا خرچہ خود اٹھا سکیں۔ جب آمنہ کے خاندان والوں کو پتہ چلا تو انھوں نے کئی سوال اٹھائے کہ لڑکیوں کے لئے یہ محفوظ نہیں کیونکہ لڑکوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو گا۔
روزینہ (فرضی نام) جو کہ چارسدہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں اور اب سرکاری کالج میں استانی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جب وہ تین سال کی تھیں تب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا، والد نے دوسری شادی کر لی، ان کی اور ان کے دو بہن بھائیوں کی پرورش نانا ابو کے گھر میں ہوئی، روزینہ جماعت ہشتم کی طالبہ تھی جب اس کی شادی کرا دی گئی کہ بن ماں کی بچی ہے بس جلد اپنے گھر کی ہو جائے، اب سسرال میں سکول تو نہیں جا سکتی تھی اور سسرال والے بھی بہت سخت تھے اس لیے روزینہ نے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ دیا۔ ان کو آگے پڑھنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی تھی، انہوں نے بہت کوشش کی لیکن سسر روزینہ کے ریگولر کیا کہ پرائیویٹ امتحان دینے پر بھی راضی نہیں تھا اس لیے اپنے سسر سے چھپ کر باقی تعلیم جاری رکھی، سسرال میں گھر کا سارا کام بھی خود کرنا پڑتا تھا۔ روزینہ کے وہ چھ سات سال (تعلیم سسرال اور بچوں کو ایک ساتھ منیج کرنا) انتہائی کھٹن سال تھے۔
بقول روزینہ اگر صبح پیپر کے لئے بھی جانا ہوتا تو رات یہ اپنے حصے کا تمام کام کرتیں اور صبح تک اپنا پیپر یاد کرتیں، صبح پیپر دینے جاتیں، واپس آتیں تو گھر کے سو کام ہوتے تھے، بچوں کو بھی سنبھالنا ہوتا تھا اور ان تمام کاموں نے ان کی نیند حرام کر رکھی تھی۔
روزینہ کے سسرال والے ان کو یہ طعنہ دیتے کہ تعلیم سے کچھ نہیں ہوتا کام سے نظریں چرا رہی ہو، شادی کے بعد بھلا کون سی پڑھائی ہوتی ہے۔ کسی نے تو یہ تک کہا کہ پڑھ لکھ کر کون سا تیر مار لے گی کون سی افسر کی سیٹ اس کو مل جائے گی، کام چور ہے اس لیے پیپر اور تعلیم کا بہانہ بنا رہی ہے۔ روزینہ یہ سب سن کر بعض اوقات رو پڑتیں کیونکہ وہ اپنا سارا کام اور اپنی ساری ذمہ داریاں پوری کرتیں اس کے باوجود لوگ ان کو طرح طرح کے طعنے دیتے تھے۔
گھر والے ان کی بالکل بھی مدد نہیں کرتے تھے؛ وہ چاہتے تھے کہ یہ آگے نہ پڑھ سکے۔ ان کی فیملی میں یہ باتیں بھی ہوتی تھیں کہ شادی کے بعد تعلیم حاصل کرنا فضول ہے۔ سب روزینہ کا مذاق اڑاتے، گھر میں کوئی بھی خاتون روزینہ کے کام میں ہاتھ نہیں بٹاتی تھی۔
چونکہ روزینہ کی اپنی امی بھی نہیں تھی اس لیے اس نے کبھی بھی اپنے دل کی بات دوسروں کو نہیں بتائی۔ جب روزینہ نے ماسٹرز کیا تو ایم فل کے لیے اسے انتہائی جدوجہد کرنا پڑی کیونکہ ماسٹرز تو پرائیویٹ کیا لیکن ایم فل پرائیویٹ نہیں ہو سکتا تھا۔
ایم فل کرنے کے بعد ایچ ڈی میں جب ایڈمیشن لیا تو اس دوران روزینہ کو گورنمنٹ جاب بھی مل گئی اس لیے اب روزینہ کو اگرچہ اور مشکلات تھیں لیکن جو پڑھائی کا بوجھ تھا انہوں نے خود اپنے سر لیا۔ روزینہ اس بات پر خوش ہیں کہ اگر آج وہ گورنمنٹ ٹیچر ہیں تو شوہر کی سپورٹ کی وجہ سے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ محنت میری تھی لیکن شوہر میرے سپورٹر تھے اور اللہ کا بہت بڑا کرم، اب اکثر روزینہ دل میں یہ سوچتی ہیں کہ واقعی اللہ جو کام کرتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے ورنہ انسان کی کیا اوقات کہ وہ خود سے کوئی کام کرے۔
ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی خالدہ نیاز جو کہ صحافت کے شعبے میں پچھلے نو سال سے کام کر رہی ہیں اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ صحافت میں آنا ان کے لیے آسان کام نہیں تھا، ایک تو ان کا گھریلو ماحول ایسا نہیں تھا کہ وہ صحافت میں آتیں دوسرا یہ کہ خالدہ کو خود بھی صحافت کا علم نہیں تھا لیکن ان کو صحافت سے دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب خالدہ گھر میں چپکے ریڈیو سننے لگیں۔ ریڈیو سننے سے شوق پیدا ہو گیا کہ وہ بھی اسی طرح ریڈیو میں پروگرام پریذنٹ کریں لیکن ان کے گھر کا ماحول عام گھرانوں جیسا نہیں تھا۔ ان کے ہاں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ ریڈیو سننا صرف لڑکوں یا مردوں کا ہی کام ہوتا ہے لڑکیاں اور عورتیں ریڈیو نہیں سنتیں، پھر خالدہ کا ریڈیو میں کام کرنا
یہ تو خالدہ نے سوچا بھی نہیں تھا۔
ایک دن کالج میں خالدہ کی ٹیچر نے خالدہ کو بتایا کہ ریڈیو میں کام کرنا اتنی بڑی بات نہیں، یہ کام خالدہ بھی کر سکتی ہے اگر وہ محنت کر کے آگے پڑھ لے، ٹیچر نے مشورہ دیا کہ اگر آگے پڑھنا چاہتی ہو تو یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لو تب ہی ریڈیو کو جوائن کر سکتی ہو اور اس طرح تمہارا خواب بھی پورا ہو سکتا ہے۔
خالدہ کا کہنا تھا کہ جب جرنلزم میں ماسٹر کرنے کے بعد وہ پہلی دفعہ ریڈیو سے آن ائیر ہو رہی تھیں تو ان کے دل میں ایک ڈر اور خوف تھا، وہ ڈر اور خوف نہ صرف ان کے گھر کے افراد کا تھا بلکہ گاؤں کے رہنے والے تمام لوگوں کی ان باتوں کا بھی تھا جو بعد میں خالدہ کو فیس کرنا تھیں۔ اگرچہ خالدہ کو اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی سپورٹ حاصل تھی تاہم ان کے جو خاندان کے دوسرے افراد تھے وہ ان چیزوں کو نہیں مانتے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک لڑکی جس کے گھر میں ریڈیو سننے پر پابندی ہو اور پھر وہی لڑکی ریڈیو سے آن ائیر ہو رہی ہے تو اس کے لیے یہ کام اور وہاں تک کا سفر کتنا تکلیف دہ رہا ہو گا یہ تو وہی لڑکی سمجھ سکتی ہے۔
خالدہ کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ایک لڑکی ہونے کے ناطے اگر لڑکوں کو اپنی پسند کی نوکری یا پڑھنے کی اجازت ہے تو پھر لڑکیوں کو کیوں نہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے نے خود ہی مرد و عورتوں کے لیے الگ الگ کام مختص کئے ہیں کہ یہ کام مرد کریں گے اور یہ کام عورتیں، ان میں بعض ایسے کام بھی ہیں جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ مرد نہیں کر سکتے اور بعض ایسے جو کہتے ہیں کہ عورتوں کیلئے ممنوع ہیں۔
خالدہ کے مطابق صحافت کے شعبے میں آنے سے پہلے ان کو جتنی بھی مشکلات تھیں اب وہ بہت کم ہو گئی ہیں اگرچہ خاندان والوں نے ان کے کام کو قبول کر لیا ہے لیکن اب بھی گاؤں کے رہنے والے لوگ ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، وہ کہتے ہیں کہ اچھی لڑکیاں تو ریڈیو میں کام نہیں کرتیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتنی کامیاب ہو گئی ہے کیونکہ یہ لڑکی ہے، لڑکیاں دوسرا راستہ اختیار کرنے سے ہی کامیابیاں حاصل کرتی ہیں جبکہ یہ تمام باتیں غلط ہیں صحافت کے شعبے میں خود کو ثابت کرنا ہوتا ہے تبھی انسان کو کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں، انسان اپنی سوشل لائف کو ختم کر کے ہی آگے بڑھ سکتا ہے، انسان اپنے آپ کو بھول کر صرف کام کی طرف توجہ دیتا ہے، دن رات محنت کرنے کے بعد ہی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کون کامیاب ہوا ہے۔
خالدہ نے کام کے حوالے سے بتایا، ”میں عام لڑکیوں کی طرح شادی بیاہ میں نہیں جاتی نہ ہی خود کو توجہ دیتی ہوں کبھی کبھار تو ایسا ہوتا ہے کہ کام کرتے کرتے پورا دن کھانا نہیں کھاتی۔”
کامیابی کے حوالے سے خالدہ نے بتایا کہ صحافت میں آنے کے بعد انہوں نے تین ممالک کا دورہ کیا جن میں امریکہ، جرمنی اور نیپال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خالد نے تین ایوارڈز بھی جیتے ہیں؛ ایک فلم میکنگ میں ایوارڈ جیتا جبکہ باقی کے دو ایوارڈ سٹوری رائٹنگ پر۔