جامعہ پشاور: شعبہ فلسفہ میں بی ایس پروگرام کا ایک بھی طالبعلم نہیں
زبیر آفریدی
جب سے ایچ ای سی کی طرف سے مختلف یونیورسٹیوں میں دو سالہ بی اے اور دو سالہ ماسٹر ڈگری کے بجائے چار سالہ بی ایس پروگرام کا اعلان ہوا ہے تب سے یونیورسٹی آف پشاور میں دوسرے ڈپارٹمنٹس کی طرح شعبہ فلسفہ میں بھی ہر سال داخلوں کیلئے اعلان ہوتا ہے لیکن ابھی تک اس ڈپارٹمنٹ سے نہ تو ایک گریجویٹ طالب علم فارغ ہوا ہے اور نہ ہی بی ایس پروگرام میں کسی طالب علم نے داخلہ لیا ہے۔
کیا وجوہات ہیں کہ آج کل کے طالب علم تمام علوم کی ماں یعنی فلسفہ پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، کیا اس ٹیکنالوجی کے دور میں فلسفہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے؟ کیا یہ ڈسپلن پالیسی میکرز کے غلط فیصلوں کا شکار ہوا ہے یا ہم بطور قوم فلسفے کی اہمیت جاننے سے قاصر ہیں اور یا پھر فلسفے کی کوئی مارکیٹ ویلیو نہیں رہی؟
ان سب سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کیلئے ہم نے یونیورسٹی آف پشاور اور سیکاس یونیورسٹی کے لیکچرارز سے رابطہ کیا۔
یونیورسٹی آف پشاور میں بطور لیکچرار پڑھانے والے شیر زادہ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ہم ہر سال داخلوں کیلئے اعلان کرتے ہیں، سات آٹھ طالب علم داخلہ لے لیتے ہیں لیکن ایچ ای سی کی یہ پالیسی ہے کہ بی ایس کلاس کیلئے کم از کم اٹھارہ بیس طالب علموں کا ہونا ضروری ہے جس کی وجہ سے مجبوراً ہمیں ان طالب علموں کو ڈراپ آؤٹ فارمولے کے تحت دوسرے ڈپارٹمنٹس کو بھیجنا پڑتا ہے، پالیسی سازوں کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
شیر زادہ کا کہنا تھا کہ پچھلے سال خیبر پختونخوا میں مختلف نصاب کیلئے 1900 سے زیادہ لیکچرارز بھرتی کرنے کا اعلان ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے ان میں فلسفے کی ایک بھی پوسٹ نہیں تھی حالانکہ بی ایس کے ہر ڈپارٹمنٹ کے کے نصاب میں فلسفے کے مختلف سبجیکٹس جیسے پولیٹیکل فلاسفی، لوجیک اینڈ کریٹیکل تھنکنگ، انٹروڈکشن ٹو فلاسفی، فلاسفی آف سائنس وغیرہ موجود ہیں، اگر ایک طرف دیکھا جائے تو ماضی میں یہاں سے فارغ شدہ طالب علم زیادہ تر لیکچرارز بنے ہیں لیکن جب لیکچررشپ کے مواقع بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں تو طالب علم دیکھتے ہیں کہ فلسفہ پڑھنے کے بعد ہم کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شیر زادہ کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کچھ دوست جب دوسرے ڈپارٹمنٹ خاص کر پولیٹیکل سائنس میں پولیٹیکل فلاسفی پڑھانے کیلئے درخواست دیتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر واپس کیا جاتا ہے کہ یہ پولیٹیکل سائنس والے پڑھائیں گے حالانکہ یہ سبجیکٹ خالص فلسفے کی شاخ ہے۔
شیرزادہ نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلسفے کی دنیا میں کام کرنے والے ہم لوگوں کی بھی اس میں بھرپور کوتاہی ہے کہ ہم نے فلسفے کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے سیمینار اور دوسرے پروگرام کا کچھ خاص اہتمام نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کی دنیا میں فلسفے کے فریم ورک کے نیچے لوگ سوشل سائنسز میں مختلف حقائق دنیا کے سامنے لا رہے ہیں، اگر فلسفے کے ساتھ یہی سلوک جاری رہا تو اس سے ہمارا سارا تعلیمی نظام بہت زیادہ متاثر ہو جائے گا۔
اسی طرح یونیورسٹی آف پشاور میں فلسفے کے ڈپارٹمنٹ کے سابق لیکچرار سید جواد علی شاہ جو اب سیکاس یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بہت زیادہ یونیورسٹیاں بن رہی ہیں اور بہت زیادہ ڈپارٹمنٹس وجود میں آ رہے ہیں تو اس وجہ سے فلسفہ اپنا مارکیٹ ویلیو کھو رہا ہے، اب فلسفہ پڑھنا صرف شوق بن کر رہ گیا ہے حالانکہ اس کی اصل اہمیت معاشرے میں تنقیدی سوچ پیدا کرنا اور مختلف مذاہب اور ثقافت کے لوگوں کے مابین ہم آہنگی لانا ہے، اس سے ہمارے معاشرے کے لوگ بے خبر ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ معاشرہ شدت پسندی کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب فلسفے کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے بغیر دوسرے شعبے کے لوگ فلسفے کے مضامین یونیورسٹیوں میں پڑھائیں گے تو اس سے وہ کرائیٹیریا تو پورا ہو گا لیکن جو اصل مقصد ہے پڑھنے کا وہ ادھورہ رہ جائے گا۔
سید جواد علی شاہ کے مطابق دنیا کے جدید ممالک میں لوگ اپلائیڈ فلسفے کے ذریعے نئے علوم اور معلومات منظر عام پر لا رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو وہ تھیوری بھی ختم ہو رہی ہے۔