یکساں قومی نصاب اور اقلیتی برادری کے تحفظات
ربیعہ ارشد
جس طرح بچے کسی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اسی طرح نصاب ان بچوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور متوازن شخصیت کے مالک لوگ ہی معاشرے کی معاشرتی، معاشی اور ذہنی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم اگر نصاب میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت، ہتک آمیز القابات اور دنیا میں پائے جانے والے علاقائی تنوع، مذہبی عقائد اور لسانی اور رنگ و نسل کی اقسام کے بارے میں محدود علم اور معلومات دی جائیں گی (مثلاً یکساں قومی نصاب میں اقلیتی برادری کے پاکستانی ہیروز اور علاقائی تاریخ کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے) تو معاشرے کی نئی نسل میں ایک دوسرے کی رائے اور عقائد کیلئے برداشت اور تحمل کا عنصر بھی کم ہو گا جیسا کہ ہم ماضی میں فرقہ ورانہ اور لسانی فسادات کی وجہ سے (جانی و مالی و تشخیصی) مسائل کو بھگت چکے ہیں۔
یکساں قومی نصاب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پڑھانا شروع کر دیا گیا ہے جبکہ سندھ نے تاحال اس نصاب کو پڑھانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ مذہبی اقلیتیوں سمیت اسلام پسندوں کو بھی جنرل مضامین، سائنس، اردو، انگریزی اور مطالعہ پاکستان میں مذہبی چیزوں کی شمولیت پر اعتراض ہے کیونکہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے۔
اس نصاب کے حوالے سے ملک میں بسنے والے دیگر عقائد کے لوگ کیا رائے رکھتے ہیں اس حوالے سے ماہرین نے تنقید کی ہے۔
فورمین کرسچن کالج (چارٹرڈ یونیورسٹی) لاہور کے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر انیل سموئیل کو اقلیتی نمائندہ کی حیثیت سے اردو کتب کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی، کہ آیا اس نصاب میں مذہبی طور پر نفرت آمیز یا کسی اقلیتی گروہ کی دل آزاری کرنے والا مواد موجود تو نہیں؟
ڈاکٹر انیل کہتے ہیں کہ یکساں قومی نصاب سے توقع تھی کہ آئینی شق کے مطابق نصاب میں انکلوسیویٹی کا خیال رکھا جائے گا مگر جب انہوں نے بطور ماہر مضمون درجنوں پبلشرز کی کتب کا جائزہ لیا تو انہیں انکلیوسیویٹی کے نام پر اِکا دُکا پبلشرز نے ایک دو ابواب میں مذہبی اقلیتوں کا ذکر کیا اور وہ ذکر ایسا تھا جیسے آپ معاشرے سے الگ رہنے والے کسی گروہ کو اجنبی کے طور پر متعارف کروا رہے ہیں، اس عمل کو غیرمحسوس انداز میں کسی بچے کو اجنبیت کا احساس دلانا کہہ سکتے ہیں جبکہ شراکت داری یا انکلیوسیونس کا مطلب، شہری کو اپنائیت کا احساس دلانا اور یہ بتانا ہوتا ہے کہ ہم سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔
پروفیسر سموئیل کا کہنا ہے کہ یکساں قومی نصاب کو بناتے ہوئے لازمی شامل کرنے والے موضوعات کی ایک فہرست کے ساتھ ہدایات جاری کی گئیں تھیں، اور نتیجتاً ہر لازمی درسی کتاب میں اگر بیس ابواب ہیں تو چار پانچ ابواب میں ایک ہی مذہب کی نمائندگی نظر آئے گی، یوں باقی اقلیتی مذاہب کے بچوں کو اجنبیت کا احساس ہو گا کہ غالباً یہ کتاب ان کے لئے نہیں لکھی گئی، اس کی وجہ سے شراکت داری یا انکلیوسیو تعلیم پر سوال اٹھتا ہے۔
بطور ماہر مضمون ڈاکٹر انیل کہتے ہیں کہ یکساں قومی نصاب کی ہدایات کی فہرست میں ہونا چاہیے تھا کہ نفرت آمیز، دل آزاری کرنے والا اور صنفی بنیاد پر تعصب قائم کرنے والا مواد نہ ہو اور نہ ہی کسی ثقافت یا قوم کو کمتر دکھایا جائے، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ایک جماعت میں مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے بچے ہو سکتے ہیں اور درسی کتب سب کو ان کی راہنما کتاب محسوس ہونی چاہیے جیسا کہ سورج سب کیلئے ہوتا ہے۔
پروفیسر سموئیل نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب پابندی لگا دی جائے تو یہ ضرور ہونا چاہیے کہ اس میں تحدید آ جاتی ہے، اس کی وجہ سے ایک خاص فریم ورک سے باہر کتاب لکھی نہیں جا سکتی۔ جبکہ آج کل گلوبل ویلج سے لے کر ٹیکنالوجیکل تنوع کا زمانہ ہے، ایسی کتب سے ہم نا صرف اقلیتی بلکہ اپنے اکثریتی بچوں کا بھی نقصان کر رہے ہیں کیونکہ وسیع دنیا کے چیلنجز آئے روز بڑھ رہے ہیں اور ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہم اپنے بچوں کو کچھ نہیں سکھا رہے۔
ڈاکٹر انیل کا کہنا ہے کہ دوران تجزیہ انہیں احساس ہوا کہ ناشر کسی مصنف کو بہت کم وقت دیتے ہیں، ایسے میں بنا تحقیق کیے کاپی پیسٹ کی وجہ سے جو قباحتیں ماضی سے چلتی آ رہی ہیں وہ غیرمحسوس انداز سے جاری رہتی ہیں، "مثلاً بچپن سے پڑھتے آئے تھے کہ فلاں قوم مکار ہے اور مسلسل پڑھنے سے سوچ بھی ایسی بن گئی تھی، مگر حقیقی اور شعوری زندگی میں ایسا نہیں تھا۔”
پروفیسر سموئیل نے تجویز پیش کی کہ درسی کُتب کے مصنفین کے پاس حساسیت کا تربیتی لائسنس ہونا چاہیے، کوئی ادارہ انسانی حقوق، امن، صنفی حقوق کی حساسیت اور بچوں کی نفسیات پر تربیت دینے کے بعد ہی مصنفین کو لائسنس جاری کرے تاکہ لکھاری کو اندازہ ہو کہ اس کا لکھا ہوا ایک لفظ یا جملہ کس طرح بچے کی نفسیات پر اثرانداز ہوتا ہے اور معاشرے کو اس کے کیا نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
عطاالرحمن سمن جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں سٹونزا آباد سے ایک ریٹائرڈ استاد ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں کا ماحول بہت انکلیوسیو تھا، چونکہ ان کے والد صاحب سکول ہیڈ ماسٹر تھے تو شام میں دوسرے گاؤں سے بھی بچے پڑھنے آ جاتے تھے، ان کے صحن میں جسٹن بھی ہوتا اور صدیق پٹھان بھی! مقامی مسیحی بچے واپس چلے جاتے مگر دوسرے گاؤں سے آنے والے مسلمان بچے ہمارے گھر ہی سو جاتے اور اکثر رات میں بھوک لگنے پر وہ ڈولی سے کھانا بھی نکال کر کھا جاتے تھے۔
اپنے نام کی کہانی سناتے ہوئے عطا الرحمن نے بتایا کہ ان کے والد سمن ایس لال اور عطاالرحمان (مشہور اداکار ننھا کے بھائی) دوست تھے، اپنی دوستی کی وجہ سے دونوں نے اپنے بچوں کا نام اپنے دوستوں کے نام پر رکھا ”یعنی میرا نام عطا الرحمن اور انہوں نے اپنے بیٹے کا نام سمن رکھا۔”
عطاالرحمن نے ماضی میں مذہبی ہم آہنگی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے سکول میں میلاد بھی کرایا جاتا تھا اور سارے علاقے کے سکول اس میں شامل بھی ہوتے تھے، ابو کو عربی زبان پر بھی عبور تھا اور اگر کبھی اسلامیات کے استاد نہیں آتے تھے تو میرے ابو عربی یا اسلامیات بھی پڑھاتے تھے اور کبھی کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا تھا، پھر جب ماحول بدلا اور نصابی کتابوں میں سے اقلیتی ہیروز کو نکال دیا گیا تو دوسرے مذاہب کے بچوں کو احساس کمتری میں ڈال دیا گیا۔”
عطاالرحمن بتاتے ہیں کہ جب وہ روزگار کیلئے شہر آتے اور اس ماحول کو دیکھتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ غیرمحسوس انداز سے ٹی وی ڈراموں کے ذریعے ایسا نفرت آمیز مواد پھیلایا گیا کہ جس بنیاد پر دو مختلف مذاہب یا عقائد کے لوگوں کا دوست بننا بھی مشکل ہے۔
یکساں نصاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عطاالرحمن سمن کا کہنا ہے کہ جب یکساں نصاب کا شور سنُا تو امید تھی کہ اس میں اجتماعیت اور تنوع کا لحاظ رکھتے ہوئے نفرت آمیز مواد کو نکال دیا جائے گا لیکن برائے نام یکساں نصاب میں نفرت آمیز مواد پہلے کی طرح موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس نفرت آمیز مواد کی وجہ سے ہم ماضی قریب میں معاشرے پر اس کے اثرات دیکھ چکے ہیں، ”ہم توقع کرتے ہیں بچے ایک دوسرے کا احترام کریں، پرامن رہیں، دوستیاں کریں اور اپنی اور دوسروں کی رائے کو جگہ دیں لیکن جب ان کو یہ سب نصاب میں پڑھایا نہیں جا رہا تو پھر وہ کیسے ایک اچھا شہری بن کر دکھا سکتے ہیں؟”
محقق اور سماجی کارکن برائے انسانی حقوق کاشف اسلم نے ایک تحقیقی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اقلیتی گروہ کے مطابق درسی کُتب میں ان کے مذہب کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے تاہم جو چیزیں نصاب میں لکھی گئی ہیں وہ ان تعلیمات سے قطعاً مختلف ہیں جو ان کے مذہبی راہنما (پادری، پنڈت یا گرُو) انہیں بتاتے ہیں۔
کاشف نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جنرل نصابی کُتب میں اقلیتوں کی نمائندگی کو کیسے ظاہر کیا گیا ہے؟ کیا ایک کتاب میں تمام مذاہب کی نمائندگی موجود ہے؟ کیا لازمی کتابوں کو سب مذاہب کے بچوں نے پڑھنا ہے؟ کیونکہ سال کے بعد اکثر کتابیں ردی میں دے دی جاتی ہیں اور ان کتابوں میں آیات یا کچھ حساس چیزیں موجود ہوتی ہیں، ایسے میں کتاب کا حساس حصہ کسی اقلیتی کے گھر میں دیکھ لیا جائے تو تکفیریت کے الزامات لگنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی کئی مثالیں پاکستان کی تاریخ میں موجود ہیں، اس کے علاوہ بچے ان کو پڑھتے اور اٹھاتے وقت کس طرح ہینڈل کریں گے کہ وہ کسی طرح مذہبی تنازعے کا باعث نہ بن سکیں اس لئے مذہبی مواد میں نرمی برتنا ضروری ہے۔
کاشف اسلم کا کہنا تھا کہ علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی کُتب میں صلیبی جنگوں کا ذکر کر کے یہاں کی کمیونٹی کو بدنام کیا جاتا ہے، ان کے مذہب اور مذہبی پیشواؤں کی تضحیک کی جاتی ہے حالانکہ اس وقت ان کے مقاصد، خطہ، اور علاقائی سیاست یکسر مختلف تھی، پاک وہند کی تقسیم کے بعد ہندوؤں کو کُتب میں فضول القابات سے پکارا جاتا ہے، انہیں پاکستانی ہندو تسلیم نہیں کیا جاتا، اسی طرح خیبر پختونخوا میں سکھوں کو ماضی کے ولن کے طور پر پڑھایا جاتا تھا حالانکہ آج پاکستان میں ہندو اور سکھ سنٹر بھی ہیں، ایس پی سنگھا جنہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے کر (بطور خدائے واحد کو ماننے والوں کے ہیڈ کاؤنٹ) ووٹنگ میں اپنا ووٹ دے کر قیام پاکستان کو ممکن بنایا، سیسل چوہدری اور جوگندر ناتھ منڈل کے کارناموں سے کوئی انکار بھی نہیں کرتا لیکن مسیحیوں، ہندوؤں اور سکھوں کی پاکستان کی ترقی میں کردار، کامیابیوں اور کارناموں کو نمایاں نہیں کیا جاتا۔
سماجی کارکن کاشف نے بتایا کہ صنفی حساسیت کے حوالے سے بھی کتابوں میں عجیب تصاویر ہیں جو معاشرے میں صنفی امتیاز کو برقرار رکھنے کی کاوش معلوم ہوتی ہیں، کسی بھی کتاب میں خواتین کو رول ماڈل کے طور پر شامل نہیں کیا گیا ہے، بطور سیاسی قائد اگر بے نظیر بھٹو شہید پر اعتراض ہے تو کم از کم رعنا لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے ابواب کو شامل کیا جا سکتا تھا، ڈاکٹر رتھ فاؤ جنہیں ریاستی ایوارڈ اور انیس توپوں کی سلامی کے ساتھ دفن کیا گیا تھا، ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کے بچوں کو بتائیں کہ اقلیتوں نے بھی پاکستان بنانے اور اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے حکومت سے گزارش کی کہ قوم کے معماروں کو نفرت آمیز اور عدم برادشت کا سبق نہ پڑھایا جائے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چیئرپرسن ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، فورمین کرسچن کالج (چارٹرڈ یونیورسٹی) لاہور ڈاکٹر آشر کھوکھر نے بچوں کی نفسیات اور سیکھنے کے عمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں کے سیکھنے کا عمل دو طرح کا ہوتا ہے؛ ایک جس میں تنقیدی سوچ، ردعمل اور مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہوتا ہے، جبکہ دوسرا وہ جس میں طلبا جذبات و احساسات، اپنی صلاحیتوں کی تشخیص اور دوسروں کو سراہنے کی بنیاد پر سیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر آشر کا کہنا تھا کہ بچے جب نصاب کی کتب میں انگلش، اردو، معاشرتی علوم اور تاریخ کے مضامین پڑھتے ہیں تو وہ افیکٹو ڈومین کے ذریعے پڑھیں گے اور اقدار کو سیکھیں گے جن اقدار کو انہیں سیکھنا یا رد کرنا ہے، بچپن میں بچے کی سکول کی تعلیم انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے، اقدار جو اردگرد کی دنیا اور رویے دیکھتے ہوئے اختیار کئے جاتے ہیں لیکن یکساں قومی نصاب کے ذریعے بچے کیا سیکھیں گے؟ اس میں تفریقی عنصر بہت زیادہ ہے، جب طلبا دیگر مذاہب اور ان کی اقدار کے بارے میں نہیں پڑھیں گے تو غیرمحسوس انداز میں ان کے ذہن میں یہ خیال جنم لے گا کہ کسی دوسرے مذہب کے لوگ پاکستان میں نہیں رہتے یا دوسرے عقائد کے انسانوں کے بارے میں کچھ بھی قابل تعریف نہیں ہے، اقلیتوں کے وجود، ان کے عقائد، فیملی، مذہبی اور ثقافتی اقدار کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے تشدد اور عدم برداشت کا ماحول پروان چڑھ سکتا ہے، یہ عملی تشدد تو نہیں لیکن اقلیتوں کے وجود کو قبول کرنے سے انکار کرنے والی سوچ ضرور ہے۔
بطور ماہر تعلیم ڈاکٹر کھوکھر نے بتایا کہ نفسیاتی طور پر جب بچے تعلیم کے آغاز میں ایک ہی پیغام مسلسل پڑھتے رہتے ہیں تو وہی پیغام ان کیلئے مقدم ہوتا ہے اور وہ دیگر عقائد والوں کو دشمن تصور کر لیتے ہیں، اس میں صرف مسیحی، ہندوؤں، پارسیوں اور سکھوں کی اقدار کی بات نہیں بلکہ دیگر علاقائی اور ماضی کی اقدار بھی شامل ہوں گی۔
اقلیتی حقوق کے سماجی کارکن اور چیئرمین سماج سیوا فاؤنڈیشن چمن لال کا کہنا تھا کہ یکساں نصاب کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی یکساں حقوق اور تعلیمی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا، ہندو کمیونٹی کی کتاب لکھنے کے عمل میں پنجاب سے کوئی ہندو نمائندگی شامل نہیں کی گئی۔
چمن کا کہنا تھا کہ مطالعہ پاکستان میں سر ظفر اللہ خان کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کا تعلق احمدی کمیونٹی سے تھا، اسی طرح پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کی پاکستان سے جانے کی وجوہات نہیں بتائی جاتیں، یہ نہیں بتایا گیا کہ افغان حملہ آور سومنات مندر کا سونا لوٹنے آتے تھے، آج بھی سندھی قوم محمد بن قاسم کو ہیرو نہیں بلکہ حملہ آور کے طور پر یاد کرتی ہے اور ہمارا نصاب اسے ہیرو بتاتا ہے حالانکہ کسی بھی حملہ آور کو یہاں کے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی، اسی طرح راجہ داہر ہمارے لئے ہیرو نہیں ہے حالانکہ اس نے اپنی جنم بھومی اور دھرتی ماں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت حاصل کی۔
چمن لال کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی نصاب میں ہمسایہ ملک کی بابری مسجد ٹوٹنے کا واقعہ تو بتایا جاتا ہے لیکن اس ایک مسجد کی وجہ سے پاکستان میں 100 سے زائد مندروں کو مسمار کرنے کا واقعہ نہیں بیان کیا جاتا، مطالعہ پاکستان میں تحریک پاکستان کے وقت ہندوؤں کے کردار کے ذکر کے ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس وقت مسلمان برصغیر میں اقلیت میں تھے اور ہندوؤں کی جانب سے حقوق نہ دینے پر ہی مسلم کمیونٹی نے جدوجہد شروع کی تھی البتہ ہندو کمیونٹی کے بہت سے لوگ قائداعظم کے خاص دوست بھی تھے، لوگوں کے سامنے حقائق اور خطے کی اصل تاریخ کو لانے کی بجائے یکطرفہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے جو ناسور بنتی جا رہی ہے۔
آن لائن تعلیمی بلاگ ”ابتداء” کی بانی زیبا ہاشمی نے بطور تجزیہ نگار یکساں قومی نصاب کے اثرات اور نفاذ میں آنے والی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ درسی کتابوں پر نظرثانی بہت جلدی میں کی گئی ہے جس کا تذکرہ ماہر تعلیم انجم الطاف کے نصابی کُتب کے تجزیے میں کیا گیا ہے، پرائمری کی کتب نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیں اور دیگر ناشرین نے من وعن اس کو نقل کر لیا، اس بنیاد پر نصاب کی منظوری دینے والوں کی تعلیمی اہلیت اور قابلیت پر سوال اٹھتا ہے۔
زیبا نے اس تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یکساں قومی نصاب دعوی کرتا ہے کہ سات یا آٹھ مذہبی درسی کتب بنائے گا جبکہ پاکستان میں ہر مذہبی گروہ کی اندرونی ڈائینی مکس، ڈائی مشنز، پولٹیکس، فرقے اور اپنی ڈومین ہوتی ہیں جیسا کہ ایک مسیحی عقیدے میں دو سو سے زائد ڈی نومی نیشن ہیں تو ایک کتاب میں کتنے لوگوں کی مرضی شامل کی جائے گی؟ اس کا حال بھی ہماری اسلامیات کی کتاب جیسا کیا جائے گا جس کی وجہ سے معاشرے میں پھوٹ پڑی اور اب ان گروہوں میں بھی پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی جائے گی۔
زیبا ہاشمی کا کہنا تھا کہ تیسری جماعت کی جنرل سائنس کو واقفیت عامہ میں بدل دیا گیا ہے، سائنس کو ہٹا کر مذہبی کتابوں پر زیادہ توجہ دی گئی ہے حالانکہ آج قوم ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب کے مسئلے کا شکار ہوئی ہے اور یہ ہماری بنیادی تعلیم میں شامل ہی نہیں ہے کہ ہم اس تباہی سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ اگر آج بھی مذہب ہی پڑھانا ہے تو تباہی کے وقت قوم کو کیسے سنبھالیں گے؟ سیلاب کی وجہ سے تعلیم کا انفراسٹرکچر باقی نہیں رہا، بلوچستان میں 41 فیصد اور جنوبی پنجاب میں 40 سے 50 فیصد سکول تباہ ہو چکے ہیں، ایسا نصاب جس کے اثرات قوم پہلے ہی فرقہ ورانہ فسادات کی صورت میں بھگت چکی ہے اب اس کو کیسے لاگو کروائیں گے؟