شرح خواندگی: خیبر پختونخوا کا کون سا شہر ٹاپ پر ہے؟
عبدالستار
آٹھ ستمبر کو پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی خواندگی کا دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانچ سال سے سولہ سال تک یعنی پرائمری سے میٹرک تک تعلیم بچوں کو مفت فراہم کرے لیکن اس پر ابھی تک سنجیدگی سے عمل نہیں ہوا جس کی وجہ سے ملک میں شرح خواندگی میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو رہا اور ایک سال میں خواندگی کی شرح میں صرف صفر اعشاریہ چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اقتصادی سروے سال 22-2021 کے مطابق ملک کی آبادی 22 کروڑ 47 لاکھ ہو گئی ہے جس میں دیہی آبادی 63 فیصد جبکہ شہری آبادی 37 فیصد ہے
رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران ملک میں خواندگی کی شرح 0.4 فیصد بڑھی ہے جو 62.4 فیصد سے اب 62.8 فیصد ہو گئی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تین سال سے پانچ سال کے عمر کے ایک کروڑ چوالیس لاکھ بچوں نے تدریسی عمل شروع کیا ہے جو پچھلے سال کی نسبت 4.6 فیصد زیادہ ہے۔
سرکاری اعداد شمار کےمطابق ملک میں 73 فیصد مرد جبکہ 51.9 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں مجموعی خواندگی کی شرح 55 فیصد، پنجاب میں 66 فیصد بلوچستان میں 54 فیصد اور سندھ میں 61.8 فیصد ہے۔
غیرسرکاری ادارہ ہمقدم کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں پانچ سال سے سولہ سال تک کے سات اعشاریہ ایک ملین بچے ہیں جن میں چار اعشاریہ سترہ ملین بچے سکولوں میں داخل ہیں اور ڈھائی ملین بچے سکول سے باہر ہیں جن میں 68 فیصد لڑکیاں جبکہ 32 فیصد لڑکے شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 77 فیصد بچے سرکاری اور 22 فیصد پرائیویٹ سکولوں میں جاتے ہیں جبکہ ایک فیصد بچے مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں۔
اس حوالے سے ماہر تعلیم اور پرائیویٹ سکول نیٹ ورک کے عہدیدار ندیم شاہ نے بتایا کہ جو سروے ادارے جاری کرتے ہیں اصل حقائق اس سے خطرناک ہیں، یہ جو لٹریسی کا پیمانہ ہے اس کے مختلف معیار رکھے گئے ہیں اس لئے کہ یہ انگریز کے وقت سے چلتا آ رہا ہے کہ جو پانچویں جماعت پاس ہو وہ تعلیم یافتہ تصور ہو گا اور بعد میں تبدیل کیا گیا کہ جو لکھائی پڑھائی کر سکتا ہو وہ تعلیم یافتہ ہو گا۔ ابھی جو انگریزی میں دستخط کر سکتا ہو تو وہ بھی تعلیم یافتہ ہو گا، مخلتف معیار بنا دیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں میٹرک پاس شرح بہت کم ہے اور اس وقت لٹریسی شرح میں پشاور شہر سب سے پہلے اس طرح ایبٹ آباد دوسرے اور تیسرے پر مردان پھر صوابی اور کوہاٹ آتا ہے۔
شہری یا میدانی علاقوں میں شرح خواندگی قدرے بہتر ہے جبکہ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں شرح خواندگی خطرناک سطح تک کم ہے، کوہستان، اپردیر، کمراٹ، کالام سے اوپر پہاڑی علاقوں تورغر کے دیہی علاقوں میں سکول تک جانے کے لئے بچے کئی گھنٹے پیدل چلتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اکثر سکول نہیں جاتے۔
ندیم شاہ نے کہا کہ تعلیمی نظام میں بہت سے مسائل ہیں کہیں اساتذہ کی کمی تو کہیں فرنیچر تو کہیں سکول کی کمی کا مسئلہ ہے۔
ماہر تعلیم نے کہا کہ دنیا میں جہاں بھی خواندگی کی شرح سو فیصد ہے وہاں پر میٹرک تک تعلیم لازمی ہے ملائیشیا میں اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو برتھ سرٹیفیکیٹ بنایا جاتا ہے اور سکول عمر تک پہنچنے پر ہی سکول والے جا کر اسے سکول لے جاتے ہیں اور کوئی والدین اپنے بچے کو سکول میں داخل نہ کریں تو دس سال قید ہو گی۔
ندیم شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آرٹیکل 25 اے کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانچ سال سے سولہ سال تک بچوں کو مفت تعلیم مہیا کرے یعنی میٹرک تک مفت تعلیم دے گی، حکومت نے سکول تو بنا دیئے ہیں لیکن ایک ایک کلاس میں سو سے زیادہ بچے ہوتے ہیں اور 1980 سے ابھی تک آبادی کے لحاظ سے سکول تعمیر نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے پرائیویٹ ایجوکیشن سیکٹر مضبوط ہو گیا۔
ندیم شاہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن ڈیٹا کے مطابق 24 لاکھ 74 ہزار بچے پرائیویٹ سکول میں 45 لاکھ بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے تعلیم ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے اس لئے شرح خواندگی میں اضافے کے لئے ریاست کو قانون سازی کرنی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے اور والدین پر لازم کریں کہ میٹرک تک ہر بچے کو تعلیم دلوائیں، انکار پر دس سال قید ہو گی اور اس کے لئے زیادہ سکول تعمیر کئے جائیں اور تربیت یافتہ اساتذہ تعینات کئے جائیں جس سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ شرح خواندگی کے اضافے میں معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈر کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اس میں خاص کر علماء کو جو انگریز دور سے دنیاوی علوم کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں، ان کی سرپرستی کی بھی ضرورت ہو گی جس طرح پولیو میں علماء نے کردار ادا کیا اس طرح تعلیمی خواندگی میں بھی علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن خیبر پختونخوا کے سیکرٹری معتصم باللہ نے کہا کہ اس سال خیبر پختونخوا میں سرکاری سکولوں میں دس لاکھ بچوں کی انرولمنٹ کا ہدف تھا جس میں نئے سات لاکھ بچے اور بچیاں سکول میں داخل کر دی گئی ہیں جو کہ ریکارڈ انرولمنٹ ہے اور مزید بچے بھی داخل کئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال قبائلی اضلاع میں بھی سکولوں میں بچوں کے داخلے میں ماضی کے مقابلے میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے قبائلی اضلاع میں شرح خواندگی میں اضافے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور سکولوں میں نرسری سے آٹھویں جماعت تک سکالرشپس مقرر کر دیا ہے اور اس کے لئے حکومت نے بجٹ میں پچاس کروڑ روپے رکھ دیئے ہیں اور تین بلین روپے فرنیچر کے لئے جاری ہو چکے ہیں اور سکولوں میں دیگر سہولیات میں باتھ روم، چاردیواری اور گراؤنڈ کے بھی پیسے دیئے گئے ہیں، ایڈیشنل کلاس رومز کے لئے اور مزید سکولوں کی تعمیر کے لئے پیسے خرچ کر رہی ہے۔
معتصم باللہ نے کہا کہ صوبے میں 34 ہزار دو سو 72 سکولوں میں نئے داخلے کے لئے ضلع کے سطح تحصیل ویلج کونسل اور محلے کی سطح پر گھر گھر جا کر داخلے کی مہم چلائی پہلے تو لوگ سکول آتے تھے اور اپنے بچوں کو داخل کرتے تھے اس مرتبہ ہم لوگوں کے پاس گئے مسجد میں اور حجروں میں لوگوں سے ملے اور زندگی کے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے اس داخلہ مہم میں ہمارے ساتھ مدد کی اور لوگوں کو بچوں کو سکول میں داخل کرنے کی ترغیب دی جس کی وجہ سے ریکارڈ نئی انرولمنٹ ہو گئی جو سات لاکھ کے قریب ہے۔
سیکرٹری ایجوکیشن نے کہا کہ اس سال ایک ہزار ضرورت کی بنیاد پر نئے سیکنڈ شفٹ سکول شروع کریں گے اور وہ بچے جو صبح کے وقت کسی وجہ سے سکول نہیں جا سکتے وہ دن کے دوسرے وقت میں سکول جا سکیں اور تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے بھی خیبر پختونخوا میں کئی اضلاع میں سکول متاثر ہوئے ہیں جس کی اسسمنٹ جاری ہے کہ کتنے سکول متاثر ہوئے جن کی تعمیر یا دیگر ضروریات پر کام شروع ہو سکے۔
سرکاری سینکنڈری سکول کے پرنسپل اور ماہر تعلیم حافظ زبیر نے کہا کہ شرح خواندگی کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں احساس پیدا کرنا ہے کہ تمام مسائل کا حل تعلیم اور شرح خواندگی میں اضافے میں ہے لیکن بدقسمتی سے 1947 سے لے کر اب تک جتنا توجہ تعلیم پر دینے کی ضرورت تھی وہ توجہ ابھی تک نہیں دی گئی اس وجہ سے پاکستان دوسرے ممالک کی نسبت پیچھے رہ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توجہ کے ساتھ تعلیم کے لئے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور یو این او کے چارٹر اور ہدف کے مطابق جیٖ ڈی پی کا چار فیصد بجٹ تعلیم کے لئے محتص ہونا چاہیے تاکہ شرح خواندگی میں اضافہ ہو سکے اور اس وقت ملک کی بجٹ میں تعلیم کے لئے دو فیصد سے زیادہ نہیں ہوا ہے۔
حافظ زبیر نے کہا کہ جب حکومت کی جانب سے تعلیم پر انویسمنٹ نہ ہو اور اس کے مقابلے میں ترقیاتی بجٹ میں اضافہ ہو رہا ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک میں شرح خواندگی کم رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں شرح خواندگی شہری علاقوں میں 76 فیصد اور دیہی علاقوں میں 51 فیصد ہے اور مجموعی طور پر 55 فیصد شرح خواندگی ہے، شرح خواندگی میں کمی کی دوسری بڑی وجہ غربت ہے، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ اپنے بچوں کو کم عمری میں روزگار پر لگا دیتے ہیں اور وہ تعلیم سے محروم رہتے ہیں اس کے علاوہ والدین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم پر توجہ نہیں دیتے اور اکثر والدین خود بھی ان پڑھ ہوتے ہیں، انہیں تعلیم کی اہمیت کا پتہ نہیں ہوتا۔