تعلیم

تورغر: گھریلو استعمال کے لیے پانی تک رسائی بچیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ

عظمت حسین

"بچیاں صبح سویرے گھر سے تعلیم کے لئے نہیں بلکہ گھر والوں کی پیاس بجھانے کے لئے نکلتی ہیں۔” یہ کہنا ہے تورغر کے رہائشی فضل کا جن کے مطابق ان کے گھر سے پانی کا چشمہ قریباً ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس کے لئے انتہائی دشوارگزار رستے سے گزرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آس پاس کے تقریباً پچاس گھر جوکہ ایک گاؤں کی شکل میں رہتے ہیں اس ایک چشمے سے پانی لاتے ہیں اور اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے گاؤں یا محلے جو کہ تقریباً تین سو گھروں پرمشتمل ہیں ان کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے، ”پانی ایک ایسی مجبوری ہے جس کا استعمال ہر حال میں کرنا پڑتا ہے کئی کئی گھروں میں حاملہ خواتین لمبے راستے پیدل طے کر کے سروں پہ پانی کے مٹکے بھر کر لاتی ہیں جس سے ان کی نارمل زچگی پیچیدہ ہو سکتی ہے۔”

واضح رہے کہ تورغر کو جون 2011 میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اسے ایک آزاد ریاستی قبائلی ضلع کا درجہ حاصل تھا اور اپنے قبائلی نظام و طرز روایات کے ساتھ ساتھ وفاق سے منسلک تھا۔ تورغر کو "کالا ڈھاکہ” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جسے "کالا پتھر” بھی کہتے ہیں۔ جس طرح نام سے واضح ہے ضلع تورغر سنگلاخ بلندو بالا مگر خوبصورت و دلکش پہاڑوں پر مشتمل ضلع ہے جس کے دامن میں پاکستان کا مشہور دریا "دریائے سندھ” بہتا ہے جبکہ یہ ضلع ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن کو بھی ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے۔”

فضل کا کہنا تھا کہ کافی عرصہ پہلے کسی پراجیکٹ کے تحت پی وی سی پائپ بچھائی گئی تھی وہ بھی اب جگہ جگہ پھٹ چکی ہے یا دھوپ کی وجہ سے خراب ہو چکی ہے۔ انتظامی اور سیاسی قیادت میں کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کو تیار  نہیں ہے، ”ایسا لگتا ہے کہ دریائے سندھ ہم جیسے عام شہریوں کے ساتھ عورتوں اور بچیوں کے لیے پدرسری معاشرے کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہے، پانی تک رسائی نہ ہونا ہمارے جیسے علاقہ میں عورتوں اور بچیوں کا امتحان ہے۔”

پاکستان کو اس وقت شدید قحط سالی کا سامنا ہے۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع  اس کی زد میں ہیں۔  عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے خطرناک ترین ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دو ہزار نو میں فی کس 1500 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ 2022 میں گھٹ کر پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر تک رہ گئی ہے۔ ماہرین نے دو ہزار پچیس تک 500 کیوبک میٹر تک گھٹنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس سے ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر بروقت درست اور ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک جنوبی ایشیاء میں پاکستان خطرناک ترین ملک ہو گا جس کو سب سے زیادہ پانی کی کمی کا سامنا ہو گا۔

طالبون ہیڈکوارٹر جدباء کے  علاقے جہانگیر آباد کے رہائشی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے ایک اسکیم کے تحت ہمارے محلے میں پی وی سی پائپ بچھائی گئی جو کہ وقت کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اب مجبوراً بچیاں باہر سے سروں پہ پانی بھر کر لاتی ہیں کیونکہ رستہ بازار سے گزرتا ہے اس وجہ سے بڑی عمر کی خواتین چشمے تک نہیں جا سکتیں اس لیے بچیوں کو ہی پانی ڈھونے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جس سے ان کی تعلیم اور زندگی بہت بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔

طالبون کہتے ہیں کہ جب پانی کا استعمال زیادہ ہو، محلے میں غمی شادی ہو یا گھر میں بیماری وغیرہ ہو تو بچیاں سکول سے چھٹی کرتی ہیں اور پھر سارا سارا دن پانی بھر کر لاتی ہیں۔ انہوں نے حکومت وقت اور نئے منتخب تحصیل چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ ہمارے محلے کے لئے پانی کی ایک جامع اسکیم منظور کی جائے تاکہ ان کی بچیوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوبنے سے بچ جائے اور انہیں بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح کی زندگی کی بنیادی سہولیات میسر آئیں۔ یہ محلہ ساٹھ سے زائد گھروں پر مشتمل ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں 70 فیصد افراد کا پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ کل دستیاب پانی کی مقدار ڈھائی سو ارب کیوبک میٹر ہے۔ اس میں سے نوے فیصد پانی زراعت، چار فیصد پانی صنعت جبکہ صرف چھ فیصد پانی گھریلو استعمال کی مد میں آتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button