تعلیم

”میں پاکستان کے لیے ایک اور نوبل پرائز لانا چاہوں گا”

حمیرا علیم

کسی ملک کی تعمیر و ترقی میں اس کے نوجوانوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے محنتی نوجوان ہی ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ملک کیلئے  کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے سترہ سالہ محمد شہیر نیازی اور ان کی جڑواں بہن خدیجہ نیازی، جو کہ لاہور کالج آف آرٹس اینڈ سائنس میں اے لیول کے طالبعلم ہیں اور سائنسدان کے طور پہ جانے جاتے ہیں، انہوں نے وہ کام کیا جو نیوٹن اور آئن اسٹائن بھی نہ کر سکے۔

آئزک نیوٹن 17 سال کے تھے جب ان کا پہلا مقالہ شائع ہوا جبکہ شہیر کی عمر 16 سال تھی۔ ان کی الیکٹرک ہنی کومب پہ تحقیق رائل سوسائٹی اوپن سائنس جرنل میں شائع ہو چکی ہے۔ 2016 میں روس میں ہونے والے انٹرنیشنل ینگ فزسسٹ ٹورنامنٹ میں یہ پراجیکٹ انہیں اور ان کے چار پاکستانی ساتھیوں کو دیا گیا تھا۔

جبکہ خدیجہ کا تحقیقی مقالہ این آر سی ریسرچ پریس میں جو کینیڈین سائنس پبلشنگ کا ایک حصہ ہے، اس میں شائع ہوا۔ اپنے بھائی کی طرح خدیجہ نیازی بھی بین الاقوامی توجہ کا مرکز رہ چکی ہیں۔ سب سے پہلے اکتوبر 2012ء میں ٹائم میگزین نے خدیجہ کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔

وہ اس وقت اپنی بارہویں سالگرہ سے پہلے یوڈاسٹی (Udacity) نامی سیلیکون ویلی کی اسٹارٹ اپ کمپنی سے کالج کے لیول کا ایک آن لائن کورس مکمل کرنا چاہتی تھیں۔ خدیجہ امتحان دے ہی رہی تھیں جب پاکستانی حکومت نے یوٹیوب پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے وہ سائٹ کی ایمبیڈڈ ویڈیوز تک رسائی حاصل نہیں کر پائیں۔ خدیجہ نے یوڈاسٹی کے فورم پر ایک غصے بھرے پیغام میں اپنے دُکھ کا اظہار کیا اور کچھ ہی گھنٹوں میں دوسرے طلباء نے ان کی مدد کرنا شروع کر دی۔ اور اگلے روز امتحان نا صرف پاس کیا، بلکہ اس میں امتیازی پوزیشن بھی حاصل کی۔

شہیر اور خدیجہ کے والدین نے انھیں ہمیشہ روایتی نظام تعلیم سے ہٹ کر تعلیم دی۔ ان کے والدین انھیں ہمیشہ کہتے ہیں، ’’کتابیں پڑھو، دستاویزی فلمیں دیکھو، اور پھر آن لائن جا کر مزید معلومات ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔‘‘

ماہرِ طبعیات برقی چھتے کے رحجان سے کئی دہائیوں سے واقف ہیں۔ تاہم یہ برقی چھتہ ہوتا کیا ہے اور شہیر کی تحقیق نے ایسے کون سے پہلو عیاں کیے ہیں جس پر دنیا کے سائنسدان ان کے معترف ٹھہرے؟

شہیر کا کہنا ہے: ”سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کائنات میں ہر چیز کو توازن چاہیے، برقی چھتے اسی رجحان کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ ان کی شش پہلو شکل کائنات میں سب سے متوازن ساخت ہے۔ سائنسی تجربے میں دو الیکٹروڈز ہوتے ہیں، ایک سوئی اور دوسری آہنی پلیٹ۔ اس پلیٹ پر تیل ڈال دیا جاتا ہے۔ تیل میں سے بجلی نہیں گزر سکتی۔ ایک الیکٹروڈ یعنی سوئی سے جب ہائی وولٹیج گزرتی ہے تو وہ ایک چھوٹے پیمانے پر ایسا ہی عمل ہوتا ہے جیسے آسمانی بجلی گرتی ہے۔ جب برق پاروں کا دباؤ تیل پر زیادہ بڑھ جاتا ہے تو وہ انھیں راستہ دے دیتا ہے اور وہ دوسرے الیکٹروڈ سے جا ملتے ہیں۔ تاہم تیل نہیں چاہتا کہ اس کی شکل بگڑے اس لیے وہ توازن دوبارہ حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں شہد کی مکھیوں کے چھتے کی شکل کے ڈھانچے بنتے ہیں۔”

شہیر کے مطابق کائنات میں توازن کے تصور کے اس مخصوص رجحان پر تحقیق ہوئی ضرور تھی مگر زیادہ نہیں یہی وجہ ہے کہ جب ان کی والدہ نے سنہ 2016 میں ان کے لیے روس میں ہونے والے بین الاقوامی نوجوان ماہرِ طبعیات کے ٹورنامنٹ میں جسے علمِ طبعیات کا ورلڈ کپ بھی کہا جاتا ہے، اس میں مقابلہ کرنے کا موقع تلاش کیا تو وہاں انھیں اسی سائنسی مسئلے پر کام کرنے کو کہا گیا۔

شہیر کی تحقیق جس نئے پہلو کو سامنے لائی وہ تھا تیل کی سطح پر حرارت کا فرق۔ شہیر نے اس عمل کی تصویر کشی بھی کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس وقت انھیں ویسا ہی احساس ہوا جیسا انھیں بچپن میں پہلی دفعہ گھر کی چھت پر کیے گئے کیمیکل تجربے کی کامیابی پر ہوا تھا، ”مجھے معلوم تھا کہ ایسا پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ میں نے اس حوالے سے ماضی میں کی جانے والی تحقیقات پر مضامین پڑھ رکھے تھے۔”

روس سے واپسی پر انھوں نے اس تحقیق کو دنیا کہ کسی اچھے رسالے میں شائع کرنے کی ٹھانی جس کے لیے انھیں مزید ایک سال تحقیق کرنی پڑی۔ اس دوران انھوں نے انٹرنیٹ کی مدد حاصل کی اور تجربوں کے لیے وہ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ سائنسز کی لیبارٹری استعمال کرتے رہے۔

شہیر کو علم اور تحقیق سے دوستی کا ماحول گھر ہی سے ملا۔ ان کے والد اور دادا کی دلچسپی سائنس اور خصوصاٌ علمِ طبعیات میں تھی۔ 11 برس کی عمر سے وہ انٹرنیٹ پر موجود مختلف موضوعات پر باقاعدہ کورس کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک مشہور آن لائن پورٹل ’کورسیرا‘ پر وہ اب تک 25 کے قریب کورس کر چکے ہیں، ’میں سکول میں پڑھائی جانے والی چیزوں سے جب بیزار ہو جاتا ہوں تو آن لائن کورسز کا رخ کرتا ہوں۔ اس طرح آپ اچھی یونیورسٹیز سے گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔‘

ہر سائنسدان کی طرح شہیر کے ذہن میں تجسس کی رو ہر وقت موجود رہتی ہے تاہم ساتھ ہی وہ ٹھہراؤ کے بھی متلاشی رہتے ہیں۔ ان کی والدہ کہتی ہیں شہیر کو موسیقی سے بھی دلچسپی ہے۔ گھر میں ان کا ایک عدد پیانو موجود ہے جسے بجانا بھی انھوں نے انٹرنیٹ سے سیکھا ہے، ایک اچھے مصور بھی ہیں اور خاکے کافی اچھے بنا لیتے ہیں۔ سائنس سے دلچسپی کی وجہ سے ان کے گزر اوقات کے لیے کھلونوں میں بھی دوربین یا دور درشک جیسی چیزیں شامل ہیں۔

شہیر کہتے ہیں کہ برقی چھتوں کے عمل سے حاصل ہونے والے علم کا استعمال بائیو میڈیسن، پرنٹنگ اور انجینئرنگ میں ہوتا ہے، ’اس طریقے سے ہم برقی رو یا تیل کے ذریعے دوا کی ترسیل کر سکتے ہیں۔ مختلف طریقوں سے تیل کے ساتھ جوڑ توڑ کی جا سکتی ہے۔‘

مستقبل میں شہیر طبعیات کے حوالے سے علم کو بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی میں زیرتعلیم ہیں، ’میں پاکستان کے لیے ایک اور نوبل پرائز لانا چاہوں گا۔‘

ان کی والدہ عائشہ احمد جو کہ ایک اسپیچ تھراپسٹ ہیں کہتی ہیں: "میرے دونوں بچے ریسرچ کے شعبے میں کام کریں گے۔”

امید ہے ہمارے طلباء نمبرز کی دوڑ میں لگنے کی بجائے ان دونوں بہن بھائی کی طرح کوئی تعمیری کام کرنے میں دلچسپی لیں گے اور ملک کا نام روشن کریں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button