افغان طلباء اور پاکستانی جامعات: بنیادی مسئلہ فیس اور دستاویزات
نوریہ بازوان
پاکستان میں مقیم افغان طلباء کیلئے سرکاری جامعات میں داخلہ لینا پہلے بھی ایک مشکل مرحلہ تھا تاہم سقوط کابل کے بعد یہاں آنے والے نئے افغان پناہ گزنیوں کے لئے یہ مشکل اور بھی بڑھ گئی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کیلئے پاکستانی ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے زیرانتظام سرکاری جامعات میں ہر سال ایک ہزار افغان طلباء کو علامہ اقبال سکالرشپ کے تحت داخلہ دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ بھی پناہ گزیوں کیلئے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے زریعے دیگر ممالک بھی پاکستان میں افغان طلباء کو مختلف سکالرشپ فراہم کرتے ہیں تاہم افغان حکومت تبدیل ہونے کے بعد پاکستان آنے والے طلباء کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے اور یہ طلباء کہتے ہیں کہ ان کے لئے یہ سکالرشپس بہت کم ہیں۔
جامعہ پشاور کے ایم فل سکالر خمینی سجاد افغان کہتے ہیں کہ ان کے ملک میں حالات بدلنے کے بعد وہاں ہزاروں لاکھوں طلباء کا سلسلہ تعیم منقطع ہوا ہے اور ان تمام طلباء کی اولین ترجیح پاکستان (کے تعلیمی اداروں) میں داخلہ لینا ہوتا ہے لیکن یہاں بہت کم طلباء کو سکالرشپس یا وظائف دیئے جاتے ہیں، ”نجی تعلیمی اداروں میں پھر بھی گزارہ ہو جاتا ہے کہ وہاں افغان و پاکستانی طلباء کو یکساں بنیادوں پر داخلہ دیا جاتا ہے لیکن سرکاری تعلیمی اداروں میں پھر یہاں جو شخص بیرون ملک سے آتا ہے اور یہاں داخلہ لینا چاہتا ہے تو اس سے دگنی فیس لی جاتی ہے، فیس کا ادھر جو مسئلہ ہے وہ یہاں دو گنا ہے، اور ادھر افغانوں کی مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اتنی فیسیں برداشت کر سکیں تو اس معاملہ کی طرف ضروری ہے کہ زیادہ توجہ دی جائے، اس فیس کے معاملے میں اور دستاویزات کے حوالے سے بھی کوئی آسانی دی جائے کیونکہ (یہ) لوگ بہت سارے مسائل کا شکار ہیں، افغانستان میں وہاں اپنے بھی مسائل زیادہ ہیں تو یہ لوگ اور بھی زیادہ مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں۔”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ بعض خوش قسمت افغان طلباء کو اگر یہاں داخلہ مل بھی جاتا ہے تو دستاویزات کے سلسلے میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ”جب ہم ادھر آئے تو افغانستان میں دستاویزات کے حوالے سے ہمیں جو مسائل تھے، وہ الگ سے ہیں، اور پھر ادھر پاکستان میں اس سلسلے میں ہمیں بہت حوالوں سے مشکلات ہیں مثلاً ایک مسئلہ Equivalency (مساوی سند) کا ہے کہ جب ہم یہاں ایچ ای سی سے اپنی دستاویزات کی تصدیق کراتے ہیں تو اس حوالے سے زیادہ مسائل یہ ہیں کہ ایک تو اس میں وقت بہت لگتا ہے، اور ادھر متعلقہ ڈپارٹمنٹ یا ادارے کی انتظامیہ کی جانب سے ہم پر پریشر ہوتا ہے کہ یہ Equivalency جلدی جمع کرائیں اور وہ کام جلد سے جلد پورے ہوتے نہیں، اس کے ساتھ، کیونکہ اُدھر افغانستان میں تعلیمی نظام بالکل مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، اور اس مفلوج نظام کی وجہ سے وہاں کے اکثر تعلیمی ادارے بند ہو گئے ہیں تو ایچ ای سی کی جانب سے اس سلسلے میں جب انہیں ای میل کی جاتی ہے تو اس کا جواب نہیں آتا، اور اس کی وجہ سے ہمیں پھر دوبارہ فیس بھرنا پڑتی ہے، پانچ ہزار روپے مزید خرچہ آتا ہے (اس Equivalency پر)۔”
مختلف زارئع کے مطابق پاکستان کی سرکاری جامعات میں سکالرشپ کے بغیر داخلہ لینے والے ایک افغان یا دیگر ممالک سے آنے والے طلباء سے فی سمیسٹر سات سو تا ہزار ڈالر فیس لی جاتی ہے۔
ننگرہار سے آئے حمیداللہ نے بھی سکالرشپ نا ملنے کی وجہ سے پشاور یونیورسٹی میں نجی طور پر/پرائیویٹ داخلہ لیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ فیسیں (بھرنا) ہر افغان کے بس کی بات نہیں ہیں۔ ”یہاں پر فیسوں کا مسئلہ ہے جو بہت اہم ہے، اور یہ فیسیں جو ہیں وہ ہماری نارمل اقتصاد (مالی حالت) کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں، یعنی وہ افغان جو یہاں آتے ہیں ان کا مسئلہ یہی ہے کہ یہ فیسیں ان کے بس سے باہر ہوتی ہیں، اور اس کے ساتھ یہاں افغان زیادہ ہیں، اُدھر حالات بھی خراب ہو گئے اور اِدھر زیادہ لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہاں تعلیم کے لئے آئیں جبکہ یہاں ان کے لئے سیٹ/آسامیاں کم ہیں۔”
دوسری جانب جامعہ پشاور کی انتظامیہ کے مطابق افغان طلباء کو علامہ اقبال یا دیگر وظائف کے علاوہ یہاں افغانوں کو اپنی (جامعہ کی) طرف سے بھی بہت آسانیاں دی جاتی ہیں اور ہر شعبہ میں ان کے لئے کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔
جامعہ کے اسسٹنٹ دائریکٹر ایڈمیشن عبداللہ نے بتایا کہ اس کوٹہ کے تحت ہر ڈپارٹمنٹ کے بی ایس اور ایم ایس پروگرام میں ایک ایسے افغان کو بھی عام فیس پر داخلہ دیا جاتا ہے جس کے پاس پی او آر کارڈ ہوتا ہے، ”اب جو طلباء آئے ہیں انہیں ہم نے افغان شہریوں کے لئے مقررہ کرائٹیریا (معیار) کے مطابق سہولت بھی دی ہے، موقع پر ہی ہم نے (افغان طلباء کو) ڈپارٹمنٹ میں بھیجا بھی ہے کہ ان کی سٹدیز جو ہیں وہ جاری ہیں، اس کے ساتھ جو اب مزید آ رہے ہیں تو ہمارے یہاں تو بی ایس/انڈر گیٹ سٹڈی میں تو فال (خزاں) چل رہا ہوتا ہے لیکن اگر ہم ہائر لیول سٹڈیز پر دیکھیں تو ہمارے پاس ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہوتی ہے جسے ہم دو مرتبہ اناؤنس کرتے ہیں، اس میں ہمارے پاس فال سیشن ہوتا ہے اور سپرنگ (بہار) بھی، تو اس میں فرض کریں ایچ ای سی سے جو نامزدگیاں آئی ہیں، تو آدھے جنہوں نے کیا (داخلہ لیا) ہے انہیں تو ہم نے سہولت دی ہے وہ پہلے سے ہی کلاسز لے رہے ہیں لیکن اگر سکالرشپ لیول پر ہمیں ہائر ایجوکیشن کی طرف سے جو نامزدگی آئی ہے تو اسے ہم نے اگر فال سیشن میں ممکن تھا تو اس میں اور اگر سپرنگ سیشن میں ہو سکتا تھا، وہاں ان کو جگہ دی (یا گنجائش دی) ہے۔”
دوسری جانب افغان طلباء جامعہ کی اس پالیسی سے خوش تو ہیں لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ چونکہ نئے آنے والے طلباء کے ساتھ پی او آر کارڈ نہیں ہوتا تو ان کے لئے بھی کوئی ایسی پالیسی وضع کی جائے کہ انہیں عام فیس پر داخلہ مل سکے اور وہ اپنا سلسلہ تعلیم جاری رکھ سکیں۔