کیا واقعی ضلع خیبر کی سکول بھرتیوں میں عوام کا حق مارا گیا؟
وقاص الرحمٰن
قبائیلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد یہاں کا روایتی نظام اور طور طریقے بھی وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ سہولیات میسر کروائی جا رہی ہیں جو صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کو میسر ہیں، اور دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبہ جات میں بھی بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
اسی بابت قبائلی اضلاع کے تمام تر سرکاری سکولوں کو پی ٹی سی فنڈ جیسی سہولیات سے بھی آراستہ کیا گیا ہے، یہ فنڈ سرکاری سکولوں میں عدم موجود سہولیات کی فراہمی اور سکول کی تعمیر و ترقی میں استعمال کرنا ہوتا ہے، جن میں سکول کی چھوٹی چھوٹی ضروریات جیسے کہ صاف پانی، واش رومز، سکول کی چاردیواری اور مزید حفاظتی اقدامات شامل ہیں، یہ سب علاقے کے نمائندے اور سکول انتظامیہ مل کر خود ہی اس فنڈ سے پوری کرتے ہیں۔
باقی قبائیلی اضلاع کی طرح ضلع خیبر میں بھی سکول پی ٹی سی فنڈ جاری کئے جا چکے ہیں اور رفتہ رفتہ یہاں کی عوام اور سکول انتظامیہ مل کر سکولوں کی ترقی و بحالی میں کردار ادا کر رہی ہیں۔
اسی غرض سے ضلع خیبر میں مختص شدہ پی ٹی سی فنڈ سے سکولوں میں تعلیمی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے عارضی بھرتیوں کا فیصلہ کیا گیا جس میں مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری سکولوں میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، اور متعدد نوجوانوں نے ان عارضی بھرتیوں میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے آسامیوں کے لئے درخواستیں جمع کیں، جن کو عمل سے گزارتے ہوئے چنا گیا۔
دوسری طرف ضلع خیبر کے کچھ گروہوں نے ضلع خیبر کے تعلیمی دفتر کو نشانہ بناتے ہوئے خبریں پھیلائی ہیں کہ مختص شدہ پی ٹی سی فنڈ میں عارضی بھرتیوں کے دوران افسران کے پسندیدہ اور غیرمتعلقہ لوگوں کو بھرتی کے لئے نامزد کیا گیا۔
اسی طرح کچھ شکایت کنندگان کا یہ کہنا ہے کہ ہماری تعلیمی صلاحیت زیادہ ہونے کے باوجود ہمارے ہی علاقائی سکولوں میں کم تعلیم یافتہ اور غیرمتعلقہ افراد کو بھرتی کیا گیا۔ شکایت کنندگان کا یہ بھی کہنا ہے کہ درخواست جمع کروانے کے باوجود جب ہم ضلعی تعلیمی دفتر گئے تو وہاں سے یہ کہہ کر فارغ کئے گئے کہ ہم نے درخواستیں جمع ہی نہیں کیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ تعلیمی افسران پر رشوت اور اختیارات کے غلط استعمال کی خبریں بھی زیرگردش ہیں۔
اس حوالے سے ضلع خیبر کی علاقائی تنظیم زوان کوکی خیل اتحاد کے صدیق آفریدی نے کہا کہ بجائے اس کے کہ متعلقہ سکولوں میں اسی علاقے کے افراد بھرتی کے لئے نامزد ہوں تو دوردراز علاقوں سے غیرمتعلقہ لوگوں منتخب کیا گیا۔ صدیق آفریدی کا کہنا تھا کہ بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے علاقائی سکولوں کے لئے آن لائن آسامیوں کی درخواست بھری لیکن ان کی درخواستیں رد کر دی گئیں۔
جب زوان کوکی خیل کے عہدیدار صدیق آفریدی سے پوچھا گیا کہ کیا ان کہ پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ صاف صاف ظاہر ہے کہ میرے ہی علاقے میں دوردراز افراد کی پی ٹی سی فنڈ کے تحت میرے ہی سکول میں بھرتی سراسر حق تلفی اور ناانصافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ سکول کا پی ٹی سی فنڈ اس علاقے کا ہے تو اس سکول میں عارضی بھرتیاں بھی اسی علاقے کے افراد کا حق ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
اس حوالے سے ضلع خیبر کے تعلیمی دفتر نے ان سارے الزامات اور افواہوں کو غلط بیانی قرار دیتے ہوئے رد کر دیا اور کہا کہ چونکہ سابقہ فاٹا کے اضلاع حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے ہیں لہٰذا اس سارے نظام کو سمجھنے کے لئے عوام کو تھوڑا وقت لگے گا۔ پی ٹی سی فنڈ کی عارضی بھرتیوں کے حوالے سے تعلیمی دفتر خیبر کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی سی فنڈ کی آسامیوں کی درخواست آن لائن طریقے کار کے تحت جمع ہوئی ہیں جو کہ ایجوکیشن سیکرٹریٹ کے براہ راست زیر نگرانی تھی، اور تمام خواہشمند افراد نے آن لائن ٹیلنٹ پول کے ذریعے درخواستیں جمع کی تھیں، جو کہ آن لائن قبول ہونے کے بعد ہی درخواست دہندگان کو اطلاعات دی گئیں، جس سے ضلعی تعلیمی دفتر خیبر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
شکایت کنندگان کی خبروں کو غلط قرار دیتے ہوئے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ تمام تر پراسیس ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی ویب سایٹ کے تحت ہوا ہے جس میں خودکار طریقے سے درخواستیں قبول ہوئی ہیں اور نا صرف ضلع خیبر بلکہ کسی بھی دوسرے ضلعی تعلیمی دفتر کا اس میں کوئی اثر رسوخ نہیں۔
ایک الزام کے جواب میں ضلعی تعلیمی دفتر انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے آن لائن درخواستیں جمع کی تھیں ان کو انٹرویو کے لئے بلایا گیا ہے، اور جن افراد کی درخواستیں موصول نہیں ہوئیں، انہوں نے غلط طریقے سے درخواستیں جمع کیں یا اپلائی غلط کی ہے جو کہ سسٹم کو موصول ہی نہیں ہوئیں اور ان کو نہیں بلایا گیا، یہی وجہ ہے کہ کچھ افراد درخواست جمع کرنے کے بعد بھی بھرتیوں کے لئے نامزد نہیں ہوئے۔