ریڈیو سٹیشن حکیم کا دواخانہ، آر جیز ہومیو پیتھک ڈاکٹرز بن گئے
خالدہ نیاز
ریڈیوز پر ہومیو پیتھک اور بیوٹی کریمز کے پروگرامز کرنے والے آر جیز نے ان پروگرامز کو عوام صحت کے لیے غیرمعیاری قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے پروگرامز کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آر جے محبوب علی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اکثر آر جیز ایسا معاشی مسائل کی وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران محبوب علی نے کہا کہ انہوں نے خود بھی کچھ عرصہ تک ایسے پروگرامز کی میزبانی صرف اس لیے کی کیونکہ ان کو معاشی مسائل نے آن گھیرا تھا لیکن جیسے ہی ان کے حالات معمول پر آ گئے انہوں نے ایسے پروگرامز کو خیرباد کہہ دیا اور اب وہ صرف انفوٹینمنٹ والے پروگرامز کرتے ہیں۔
محبوب علی پچھلے سولہ سال سے آر جے کی حیثیت پہ ریڈیو سے وابستہ ہیں جنہوں نے اب تک 7 ہزار سے زائد پروگرامز کی میزبانی کی ہے اور ان کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔ محبوب علی سنو ایف، ریڈیو دلبر، ریڈیو پیغام، ریڈیو پاکستان، پختونخوا ریڈیو اور صوبے کے کئی ریڈیوز کے ساتھ آر جے، میزبان، نیوز ریڈر اور رپورٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
حکیموں کے پروگرام والے میزبان کو آر جے کہنا آر جیز کی توہین ہے
آرجیز کیوں حکیموں اور کریمز کے پروگراموں کی میزبانی کرتے ہیں اس حوالے سے آر جے محبوب علی نے بتایا کہ اصل میں یہ لوگ آر جیز نہیں اور حادثاتی طور پر آر جیز بنے ہیں اور ان کو آر جے کہنا بھی آر جیز کی توہین ہے، جس طرح سوشل میڈیا نے حادثاتی صحافیوں کو جنم دیا ہے بالکل اسی طرح حادثاتی آر جیز بھی بن گئے ہیں۔ محبوب علی نے مزید کہا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ سینئر آر جیز بھی حکیموں اور بیوٹی کریمز کے پروگرام کرتے ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کو ریڈیو سٹیشنز کی جانب سے اتنے پیسے نہیں ملتے جس سے وہ اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پال سکیں تو ایسے میں انہوں نے یہ شوز کرنا شروع کر دیئے کیونکہ پیسہ سب کی ضرورت ہے، ‘آر جیز مجبوری میں اس طرح کے پروگرامز میں اپنی آواز بیچتے ہیں کیونکہ ان کے پاس دوسرا آپشن نہیں ہے، ان کو بھی کمانا ہوتا ہے اور گھر کی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں۔’
محبوب علی نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو آج کل ریڈیو عوام کو آٹے میں نمک کے برابر معلومات فراہم کر رہے ہیں ‘ریڈیوز میں معلوماتی پروگرام یا ایسے پروگرام جو عوام کے مفاد میں ہوں، ان کو بہت کم وقت دیا جاتا ہے باقی سارا وقت کمرشلز اور غیرضروری پروگراموں کو دیا جاتا ہے، پورے خیبر پختونخوا کے ریڈیوز میں بس یہی چل رہا ہے کہ میں بہت اچھی کریم بنا رہا ہوں، میں بہت اچھا اور ہر قسم بیماری کا علاج کرتا ہوں۔’
پرائیویٹ ریڈیو چینلز پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں
دوسری جانب پختونخوا ریڈیو مردان کے سٹیشن منیجر ساجد محمود نے کہا کہ سرکاری ریڈیو کا سارا انتظام حکومت کے پاس ہوتا ہے اور ان کو تنخواہیں بھی سرکار سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے وہ کوشش کرتے ہیں کہ ریڈیو کو عوام کے مفاد اور معلومات کے لیے استعمال کریں اور ایسے پروگرام ترتیب دیں جن میں لوگوں کو معلومات کے ساتھ ساتھ شعور بھی دیا جائے لیکن دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو پرائیویٹ ریڈیو چینلز کو اپنا انتظام خود سنبھالنا ہوتا ہے اور اس کے لیے ان کو پیسے بھی چاہیے ہوتے ہیں تو ایسے میں وہ مختلف کمرشلز پروگرام آن ایئر کرتے ہیں اور اس کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمائیں پھر ان کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ جو مواد دے رہے ہیں اس سے عوام میں ایک تو غلط معلومات پھیل رہی ہیں اور دوسری جانب اس کے ان کی صحت پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں۔
سمارٹ فونز میں ایف ایم ریڈیو موجود ہوتا ہے
انہوں نے بتایا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ آج کل جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور ہے، لوگوں کے پاس کئی میڈیمز ہوتے ہیں جہاں سے وہ اپنی مرضی کے مطابق معلومات لے سکتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں کئی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں انٹرنیٹ نہیں ہوتا تو وہاں آج بھی لوگ معلومات کے لیے ریڈیو کو ہی سنتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریڈیو کی اہمیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ ساجد نے بتایا کہ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں لوگ ٹی وی دیکھنا پسند نہیں کرتے تو ان لوگوں کے پاس بھی اپنے ملکی حالات اور دنیا سے باخبر ہونے کا واحد ذریعہ ریڈیو بچ جاتا ہے۔
سٹیشن منیجر نے کہا کہ آج کل ہر کسی کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور سمارٹ فونز میں ایف ایم ریڈیو موجود ہوتا ہے، اس کے علاوہ گاڑیوں میں بھی لوگ ریڈیو کو شوق سے سنتے ہیں۔
ساجد نے کہا کہ ریڈیو شروع سے ہی لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کا ایک ذریعہ رہا ہے، تاریخی طور پر ریڈیو کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے چاہے وہ زراعت کے حوالے سے ہو، معاشی طور پر ہو یا سماجی طور پر جبکہ موجودہ دور میں بھی لوگوں کو آگاہی دینے کے حوالے سے ریڈیو کا ایک اہم کردار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ایک ریڈیو سٹیشن کی اپنی ایک پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت وہ کام کرتے ہیں، ان کا مقصد پیسے کمانا بھی ہو سکتا ہے جبکہ لوگوں کو معلومات فراہم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
بیوٹی کریمز اور حکیموں والے پروگرامز کو تقویت دینے میں آر جے کا کردار؟
آر جے محبوب علی نے بتایا کہ ان حکیموں اور بیوٹی کریمز والے پروگرامز کے خلاف انہوں نے پیمرا کو ایک درخوست بھی دی تھی لیکن پھر وہی سفارش والی بات آ جاتی ہے، ادارے ایکشن نہیں لیتے جبکہ یہ حکیم اور باقی لوگ عوام سے 200 روپے کی دوائیوں اور کریمز پر ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے اس ضمن میں آر جیز کو بھی ذمہ وار ٹھہرایا کہ غلط قسم کے کریمز کی تعریفیں کرتے نہیں تکتے اور حکیموں کی تعریفیں بھی کرتے ہیں حالانکہ یہ نہیں سوچتے کہ ان دوائیوں اور کریمز سے لوگوں کی صحت پر برا اثر بھی پڑ سکتا ہے، اس میں جتنا ایک بیوٹی کریم والا اور حیکم قصور وار ہے اتنا ہی وہ آر جیز بھی ہیں جو ان کی تشہیر کرتے ہیں کیونکہ لوگوں کے لیے تو آر جیز رول ماڈل ہوتے ہیں وہ ان کی باتوں میں آ کر اس کا استعمال شروع کرتے ہیں۔
بیوٹی کریمز والے پروگرامز نے کئی آر جیز کو ہو میو پیتھک ڈاکٹر بنا دیا
محبوب علی کا کہنا ہے کہ ان کریموں نے کئی افراد کو آر جے بنا دیا تو کئیوں کو ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی بنا دیا ہے، آر جیز پروگرام کرتے کرتے ہومیو پیتھی کی جانب چلے جاتے ہیں، وہاں سفارش سے پاس ہو جاتے ہیں اور یوں اپنا کاروبار چمکا لیتے ہیں ‘ایک آر جے تھا جس کی بہت اچھی آواز تھی، اس کے بعد اس نے کریم بنائی اپنی اور پھر ہومیو پیتھک میں داخلہ لیا، امتحان پاس کروایا اور آج کل کروڑوں روپے کما رہا ہے اور عوام کو لوٹ رہا ہے۔’
لوگ کیا سننا چاہتے ہیں کسی کو فکر ہی نہیں
جامعہ پشاور میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور کیمپس ریڈیو سے وابستہ محمد نعمان کا کہنا ہے کہ ریڈیو شروع ہی سے لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کا ایک بنیادی، سستا اور آسان ذریعہ ہے کیونکہ لوگ اس کو کام کے ساتھ ساتھ سن سکتے ہیں چاہے وہ کسی کھیت میں کام کر رہے ہوں، ڈرائیونگ کر رہے ہوں یہاں تک کہ خواتین گھروں میں کام کے دوران بھی ریڈیو کو سن سکتی ہیں۔
محمد نعمان نے کہا کہ ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے لیے اشتہارات اور کمرشل پروگرام ضروری ہوتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے پروگراموں کو آن ایئر کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جو مواد نشر کیا جا رہا ہے وہ آیا عوام کے مفاد میں ہے بھی کہ نہیں اور اس میں اخلاقیات کا خیال رکھا گیا ہے کہ نہیں۔
انہوں نے ریڈیو پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ تب سے قائم ہے جب ٹی وی بھی نہیں تھا، اس وقت معلومات فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان تھا اور ریڈیو پاکستان کی اچھی بات یہ تھی کہ اس وقت یہاں کمیونٹی ریسرچ آفیسرز مقرر کئے گئے تھے جو مختلف علاقوں کو وزٹ کرتے اور وہاں جا کر لوگوں سے ان کی رائے لیتے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، کس قسم کے پروگرام اور معلومات سننا چاہتے ہیں جس کے بعد ان کے لیے پروگرامز بنائے جاتے تھے۔
نعمان نے کہا کہ آج کل ریڈیو سٹیشنز تو بہت زیادہ ہو گئے ہیں لیکن عوامی ضروریات کا اس طرح خیال نہیں رکھا جا رہا نہ ہی کوئی ریسرچ کرتا ہے کہ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں؟ ”ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی خواہشات اور ضروریات کے مطابق پروگرامز بنائے جائیں۔”