ضم اضلاع کے 10 لاکھ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں: سروے
پشاور میں لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ جمعرات کے روز مقامی سماجی تنظیم بلیو وینز اور پاکستان ایجوکیشن چیمپئن نیٹ ورک کے زیر انتظام لوکل گورنمنٹ کے نومنتخب نمائندوں کے لئے ایک تحریکی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں 40 سے زائد نو منتخب نمائندوں نے شرکت کی.
پروگرام کا مقصد لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کو لڑکیوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے حوالے سے ان کے قانونی اور اخلاقی کردار پر روشنی ڈالنا تھا.پروگرام میں بتایا گیا کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے لڑکیوں کی تعلیم کی ترویج اسکول میں داخلہ اور تعلیم جاری رکھنے اور ڈراپ آؤٹ کو روکنے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں.
بلیو وینز کی پروگرام کوآرڈینیٹر ثناء احمد نے پروگرام کے شرکاء کو بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے حالیہ سروے کے مطابق خیبرپختونخوا میں 4.7 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں جس میں سے تقریبا ایک ملین بچے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ سروے کے مطابق 2.9 ملین لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں ۔ سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 65 فیصد لوگ غربت کی وجہ سے اپنی بچیوں کو اسکول نہیں بھیجتے جب کہ جب کے پندرہ فیصد افراد کا خیال ہے کہ معیار تعلیم اس قابل نہیں کہ بچوں کو سکول بھجوایا جا سکے جبکہ بارہ فیصد بچے بچہ مزدوری کی وجہ سے تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں.
خاتون کونسلر نسیم ریاض نے اس موقع پر کہا کہ مقامی حکومتوں کا نظام ضلع اور تحصیل کی سطح پر تعلیم کی ترویج اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف تعلیم کی سہولیات کو بہتر بنائے بلکہ اس سے جڑے ہوئے معاملات کو بھی بہتر بنائیں تاکہ تعلیم کا سازگار ماحول میسر آسکے۔
انوار زمان چئیرمین حیات آباد فیز 7 نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے انقلابی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے. مقامی حکومتوں کے نمائندے تعلیمی ڈھانچے کو بہتربنانے اساتذہ کی کارکردگی کو جانچنے اور سکولوں میں میّسرسہولیات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لڑکیوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے۔
پاکستان ایجوکیشن چیمپئن نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے قمر نسیم نے کہا کہ تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت مطلوبہ مالی وسائل فراہم کریں نہ صرف مطلوبہ بجٹ کو منظور کیا جائے بلکہ اس کو مجوزہ طریقے سے خرچ کرنے کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں.