”کرونا وبا کے دوران بیشتر بچوں نے نہ صرف سکول چھوڑا بلکہ چائلڈ لیبر میں بھی اضافہ ہوا”
جاوید محمود
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران کورونا وبا کی وجہ سے بچوں کی ذہن اور تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اسی سلسلے میں حکومت نے انکی بحالی کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے ہیں جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وبا کے دوران بچوں کی بحالی کیلئے بین الاقوامی قوانین کے تحت پرعزم ہیں۔
ہر سال 20 نومبر کو اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت، صحت اور انہیں قوانین کے تحت بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے غیرسرکاری تنظیم گروپ ڈیویلپمنٹ پاکستان کے کوآرڈینیٹر عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بچوں کو علیحدہ پہچان اور انکے بنیادی حقوق دیئے جائے۔
معاہدے میں شامل تمام ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ بچوں کے حقوق کیلئے عوام میں شعور اور حکومتوں کو ان کے حقوق کیلئے قانون سازی پر مجبور کرے تاکہ ان کو ذہنی،جسمانی اور جنسی تحفظ بھی میسر ہو۔
عمران ٹکر نے ٹی این این کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی طور پر بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں اسی وجہ سے مختلف جگہوں پر نہ صرف ان کے حقوق کا استحصال زیادہ ہورہا ہے بلکہ مزید استحصال کا زیادہ امکان رہتا ہے۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلے ہی سے بچے اپنی بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم تھے لیکن کورونا وبا کے دوران جب تعلیمی ادارے بند ہونے لگے تو بیشتر بچوں نے نہ صرف سکول چھوڑا بلکہ چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا، انکے مطابق جو بچےدوبارہ سکولوں میں آگئے تو وہ ذہنی طور پر متاثر ہوئے تھے اور انہیں سبق یاد کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
عمران ٹکر کے مطابق پاکستان کے آئین میں واضح ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال تک بچوں کو مفت تعلیم دی جائی گی، کہتے ہیں کہ تعلیم پر کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کا دعویٰ ہے کہ اس وقت پاکستان میں ڈھائی کروڑ جبکہ خیبرپختونخوا میں 47 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہے اور ایک کروڑ بچے 16 سے 18 گھنٹے تک مزدوری کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا "بچے گھر میں ہو یا کہیں کام کی جگہ پر ،بازار میں یا سکول ومدرسہ میں ہو،ان کی ذہنی اور جسمانی کمزوری سے غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ بچوں کو نہ صرف ذہنی، جسمانی اور جنسی طور ٹارچر یا ہراساں کیا جارہا ہے بلکہ کام کی جگہوں پر ان کے عزت نفس کوبھی مجروح کیا جارہا ہے”۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے حوالے سی کی گئی قانون سازی قابل تعریف ہے مگر نچلے سطح پر اسے عملی کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے ہیں۔
عمران ٹکر کا کہنا ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قانون کے تحت بچوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائے تاکہ آنے والا مستقبل تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور جسمانی طور پر محفوظ ہو۔
کورونا وبا نے بچوں کی تعلیم پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں؟
تعلیمی ماہرین کے مطابق وبا کے دوران تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے بچوں کی ذہنی سطح متاثر ہوئی ہے جس کی دوبارہ بحالی کیلئے اساتذہ کو پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
ضلع چارسدہ گورنمنٹ مڈل سکول کے پرنسپل قاسم جان کا کہنا ہے کہ انکے مشاہدے میں آیا ہے کہ وبا سے پہلے ایک بچہ اس قابل تھا کہ وہ کلاس میں پڑھنے والے ایک مضمون کو آدھے گھنٹے میں سمجھ سکیں مگر اب انہیں سمجھانے کیلئے دو دو کلاسز لینے پڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی دوباہ بحالی کیلئے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ انکی پڑھائی کو سنجیدگی سے لیں تاکہ وہ دوبارہ اپنی پوزیشن پر آجائیں اور اسی مشن کے مکمل ہونے کیلئے حکومت کو بھی اساتذہ اور بچوں کو سہولیات دینے پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وبا سے محفوظ رہنے اور تعلیمی نظام کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے حکومت نے 12 سے 18 سال تک بچوں کیلئے ویکسینشین کا عمل شروع کیا ہے تاکہ دوبارہ بچے وبا کا شکار نہ ہوجائے اور انکی تعلیمی سرگرمیاں برقرار رہیں۔
بچوں کے حقوق کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات
خیبرپختونخوا حکومت کے صوبائی وزیر و محنت و انسانی حقوق شوکت یوسفزئی مانتے ہیں کہ صوبے میں بچے اپنے حقوق سے محروم ہیں مگرحکومت بچوں کے تحفظ اور بہبود کے حوالے سے تمام بین الاقوامی اور قومی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے پشاور کے ایک نجی ہوٹل میں تقریب کے دوران دعویٰ کیا کہ صوبائی حکومت بچوں کی حقوق کی کمیشن کو بجٹ مختص کیا ہے، اور کمیشن نے 12 ضلعی چائلڈ پروٹیکشن یونٹس میں آسامیوں کو پر کرنے کا عمل شروع کیا ہے اور جلد ہی اس پروگرام کو صوبے کے تمام اضلاع تک پھیلانے کے لیے مناسب بجٹ مختص کیا جائے گا۔
صوبائی وزیر کہتے ہیں کہ سکولوں سے باہر بچوں کے حوالے سے حکومت نے انقلابی اقدامات اُٹھائے ہیں اور اب صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں میں ڈبل شفٹ شروع کئے ہوئے ہیں تاکہ مزدوری سے وابستہ بچے بھی سکولوں میں داخل ہوسکیں اور اب تک تقریباً آٹھ لاکھ بچوں کی انلرومنٹ ہوچکی ہے۔