تعلیم

خیبرپختونخوا میں 47 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں: سروے

نسرین جبین

ہاتھ میں کرونا سے حفاظت کے ماسک کا ڈبہ اٹھائے گیارہ سالہ عمر حیات صدر بی آر ٹی اسٹیشن پر بھاگتا ہوا میرے پیچھے پیچھے آیا اور کہنے لگا کہ باجی ما سک لے لو صرف دس روپے کا ہے بس میں ماسک کے بغیر نہیں بیٹھنے دیتے۔اور پھر میرے ہاتوں کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ کب میرا ہاتھ پرس کی طرف جاتا ہے اور رقم نکال کر اسے دیتی اور ماس خرید لیتی ہوں  اوراسی لمحے اس کے دوسرے ساتھی بھی اس کے پاس آ گئے اور وہ خوبصورت معصوم شوخ اور چنچل انداز میں آنکھوں میں ہنسی اور شرارت لیے اپنے ساتھی بچوں کی طرف دیکھنے لگا کہ کہ یہ دس روپے کا گاہک تو میں نے ان سے پہلے پک لیا اس دس روپے میں اس کا صرف ایک روپے کا منافع تھا اور اس کی خوشی دیدنی تھی میں نے ماسک خرید کر اس سے پوچھا کہ تم سکول جاتے تو کہنے لگا کہ میرے ابو فوت ہو چکے ہیں اور میں جو پیسے لے کر جاتا ہوں امی کو دیتاہوں تو وہ روٹیاں اور دودھ منگا لیتی ہیں میں سکول جاوں تو پھر یہ کھانے پینے کی چیزوں کے پیسے کون دے گا؟

ملک بھر میں عمر حیات کی طرح سینکڑوں بچے مختلف شعبوں میں مشقت کرتے ہیں جبکہ بچیاں بھی سکول جانے کی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود سکولوں سے باہر ہیں اور تعلیم کے حصول سے محروم ہیں جن میں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ غربت بھی ہے۔

حکومتیں گاہے بگاہے ملک بھر میں مختلف پیمانوں پر پالیسیوں اور منصوبوں کے تحت بچوں کو تعلیم کے دھارے میں لانے کے لیے اقدامات کرتی رہتی ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر تعلیم کی شرح میں نا صرف اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا معیار بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے اسی طرح کا ایک منصوبہ گزشتہ دور میں شروع کیا گیا تھا جس میں ان طلبا کو وظیفہ دیا جاتا تھا جو کہ سکوکوں میں داخل ہوتے تھے یہ منصوبہ چند اضلاع تک اور صرف پرائمری کی سطح تک محدود تھا جسے احساس وسیلہ تعلیم کا نام دے کر اسے وسعت دے کر پورے ملک تک اور پہلی سے بارویں کلاس تک بڑھا دیا گیا ہے۔

احساس وسیلہ تعلیم کیا ہے اورغریب لوگ کتنی امداد اس پروگرام سے حاصل کر سکتے ہیں؟ 

اس پروگرام کے تحت پاکستان کے غریب بچوں کے لیے احساس تعلیم سہ ماہی وظیفہ جو مقرر کیا گیا ہے اس کے مطابق لڑکیوں کے لیے پرائمری کی سطح پر 2000/سیکنڈری/میٹرک: 3000/-ہائی سیکنڈری/انٹرمیڈیٹ: 4000روپے ہر تین ماہ کے بعد وظیفے کے طور پر دیئے جائیں گے جبکہ لڑکوں کے لیےپرائمری تک 1500/سیکنڈری/میٹرک: 2500/-ہائی سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ:0350 روپے ہر تین ماہ کے بعددیا جائے گا۔

اس پروگرام کا مقصد وہ مستحق غریب جولوگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ماہانہ امداد لے رہے ہیں ان میں تعلیم کی اہمت اجاگر کرنا، سرکاری سکولوں میں طالبعلموں کے داخلوں میں اضافہ کرنا،سرکاری سکول میں پڑھنے والے سٹوڈنٹس کی حاضری کو یقینی بنانا،سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی ڈراپ اوٹ ریشو کو کم کرنا،پاکستان سے غربت کا خاتمہ کرنا اور تعلیم کے برابر مواقع پیدا کرنا شامل ہیں۔

پروگرام کے مطابق وہ بچے یہ وظیفہ لے سکیں گے جن کے والدین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد کے ذریعے مستفید ہو رہے ہیں اورجن لوگوں کے بچے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں ان کو اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا جبکہ پرائمری سطح تک جن بچوں اور بچیوں کی عمر 4 سال سے17 سال تک ہے وہ اس پروگرام کے لئے اہل ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ سرکاری سکول میں طالب علم کی حاضری 70 فیصد ہونا لازمی ہے۔

وسیلہ تعلیم پروگرام میں رجسٹریشن کرانے کے لیے جس سرکاری سکول میں طالب علم زیر تعلیم ہے وہاں کے ہیڈ ماسٹر سے فارم لے کر پر کرنے اور ہیڈ ماسٹر سے دستخط کروانے کے بعد اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آفس میں جا کر جمع کروائی جا سکتی ہے Ehsaas Scholarship Program 2021 احساس سکول وظیفہ پروگرام اب ابتدائی تعلیم سے ہائر سیکنڈری سطح تک بڑھا دیا گیا ہے جس کے تحت چھٹی سے دسویں جماعت کے طلباء کو سہ ماہی تعلیم کا وظیفہ بھی ملے گا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بورڈ نے وسیلہ ایجوکیشن پروگرام میں انٹرمیڈیٹ فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ایئر کے طلباء کو شامل کرنے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔

بورڈ نے لڑکوں کے لیے فی سہ ماہی3500 روپے اور پہلے سال اور دوسرے سال کی لڑکیوں کے لیے 4000 روپے فی وظیفہ بھی منظور کیا۔ میٹرک کے طلباء کو PKR: 3000 سہ ماہی وظیفہ فراہم کیا جائے گا۔پرائمری سے 12 ویں کلاس تک کے تمام مستحق طلباء کو سہ ماہی بنیادوں پر وظائف دیئے جائیں گے جبکہ اس کے لیے طلباء والدین کو تمام تر معلومات اور فارمز قریبی احساس مرکز سے رابطہ کرنے پر مل سکیں گے۔

اس طرح کے پروگراموں اور منصوبوں کو بھر پور طور پر کامیاب بنانے کے لیے انہیں عام کرنے اور اس سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عام اور غریب اور مستحق لوگوں تک یہ پیغام پہنچ سکے،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سروے کے مطابق 5-16 سال کی عمر میں خیبر پختونخوا کے 47 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں ، ان میں سےدس لاکھ  قبائلی اضلاع میں رہتے ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی اسکول اساتذہ کی مدد سے بی آئی ایس پی کی قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری مردم شماری کےلیے کیے گئے۔ اس سروے میں صوبے میں اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد 2.9 ملین ہے سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 65.2 فیصد لوگوں نے غربت کو اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی وجہ قرار دیا ہے ، جبکہ 15.2 نے اسے تعلیم کے کم معیار سے منسوب کیا ہے۔ اسکول سے باہر کے 12.1 فیصد بچے چائلڈ لیبر میں مصروف تھے ، 3.8 تعلیم حاصل کرنے کو تیار نہیں تھے اور 3.7 صحت کے مسائل کی وجہ سے اسکول سے باہر تھے۔ تفصیلات کے مطابق کولئی-پالس ضلع اس فہرست میں سب سے اوپر ہے جہاں اسکول سے باہر کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جس میں 77 فیصد اسکول نہیں جاتے ہیں ، اپر کوہستان 70 فیصد کے ساتھ دوسرے اور لوئر کوہستان 69 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اسی طرح ضلع تورغر میں ایسے بچوں کی شرح 61 فیصدتھی 55 شانگلہ میں لکی مروت میں 53 ٹانک اور بٹگرام میں 51 ہنگو اور بنوں میں 47۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں46 پشاور میں 44 بونیرمیں 40سوات میں 41 کوہاٹ میں 37 اپر دیر میں 36 چارسدہ میں 31 اور نوشہرہ میں، ہری پور میں 30 کرک میں 29 صوابی اور لوئر دیر، مردان میں 28 لوئر چترال اور مانسہرہ میں 25 ملاکند میں 21 ایبٹ آباد میں 14 اور اپر چترال میں 12فیصد ہے۔

ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ، شمالی وزیرستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اس کے 66 فیصد بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں اس کے بعد باجوڑ میں 63 فیصد ، جنوبی وزیرستان میں 61 فیصد ، مومند اور خیبر میں 51 فیصد ، اور کرم اورکزئی میں 47 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button