تعلیم

خیبر پختونخوا کی طالبات کے لئے تعلیمی اداروں میں حیض کے استعمال کی اشیا کتنی ضروری ہیں؟

نسرین جبین

ساتویں کلاس کی طالبہ عذرا کلاس میں پڑھائی کررہی تھی کہ اسے اپنے وجود میں کچھ تبدیلی محسوس ہوئی لیکن ایسا کوئی انتظام سکول میں نہیں تھا کہ وہ جس سے اپنا مسئلہ ’’ جس کے بارے میں وہ پہلی مرتبہ آگاہ ہوئی تھی ‘‘ کوحل کر لیتی۔ وہ چھٹی تک اپنی کلاس میں ایسے ہی بیٹھی رہی کسی سے بات تک نہ کی اور کیا بات کرتی کیونکہ وہ خود تو جانتی ہی کچھ نہ تھی اور سارا وقت پڑھائی کی بجائے ذہنی کوفت اور پریشانی کا شکاررہی۔

جب چھٹی ہوئی تو اپنے یونیفارم کو کبھی ادھر کبھی ادھر سے درست کرتی اور سیٹ کرتی گھر جانے لگی ۔ راستے بھر اسے راہگیروں دوکانداوں اور دیگر لوگوں کی نظروں کا سامنا رہا وہ چاروں طرف دیکھتی آگے بڑھتی رہی اس پریشانی کے ساتھ کہ کوئی اسے دیکھ نہ رہا ہو جیسے اس نے کوئی بڑا جرم کر لیا ہو اور لوگوں کی چھبتی ، مضحکہ خیز نظریں اور معنی خیز مسکراہٹیں اس کی سزابن گئی ہو طرح طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے رہے اور وہ اپنے آپ ہی اپنے دل و دماغ سے بظاہر چھوٹے چھوٹے لیکن حقیقتاً بڑے سے بڑے فیصلے کرتی رہی کہ اب میں کل سے سکول نہیں جائوں گی، دوبارہ اس راستے سے کیسے گزروں گی لوگ کیا کہیں گے سوچیں گے یا پھر جائوں گی تو کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لوں گی اس کے چھوٹے سے ذہن میں خیالات و سوالات کا ایک سیلاب چل رہا تھا آگے قدم بڑھانا مشکل ہو رہا تھا۔

بارہ سالہ عذرا جب گھر پہنچی تو ماں کے گلے لگ کر رونا اور کہنا شروع کر دیا کہ اب میں سکول نہیں جاؤں گی راستے میں سارے لوگ مجھے دیکھ رہے تھے اور اسی روز ماں نے باپ کے مشورے سے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب بیٹی بڑی (جوان ) ہوگئی ہے گھر کا چولہا چونکا کرے کھانا پکانا اور گھر ستی سیکھے، ہم نے کون سی اس سے نوکری کروانی ہے اسے پڑھنا لکھنا تو آ ہی گیا ہے اور ماں بھی تو اب سارے گھر کا کام اکیلے نہیں کر سکتی۔ ماں کے ساتھ گھر کے کام میں ہاتھ بٹائے اور دوسری طرف ماں باپ نے ساتھ ہی اچھے لڑکے( رشتے ) کی تلاش بھی شروع کر دی اور اس طرح عذرا کو سکول سے اٹھا لیا گیا۔

عذرا کی طرح درجنوں طالبات سکول چھوڑ جاتی ہیں جس کی ذمہ دار اس کی ماں بھی ہے جس نے اس معاملے کے حوالے سے تجربہ کار ہونے کے باوجود بیٹی کو بروقت معلومات و سہولیات کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جبکہ سکول کی انتظامیہ کی بھی ہے کہ وہ عمر کے اس حصے میں متذکرہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے سہولیات کی فراہمی سے محروم ہیں، خواتین اساتذہ کی بھی ہے کہ وہ بحر الحال سکول ٹائم کے دوران بچیوں کی تربیت اور متعلقہ مسائل کے حل کے ذمہ دار ہیں۔ معاشرے کی بھی ہے کہ ایک حقیقت اور فطرتی چیز اور معاملہ کو سمجھتے ہوئے بھی ہر معاملے کو مضحکہ خیز اور انٹرٹیٹمنٹ کا ذریعہ بنا لیتا ہے اور یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ ہماری بہن یا بیٹی نہیں ہے بس ایک لڑکی ہے جس کے ساتھ یہ واقع ہوا ہے حالانکہ اس طرح کامعاملہ تو کسی بھی بہن یا بیٹی یا دیگر رشتے دار کے ساتھ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ نیچرل (فطرتی ) معاملہ ہے۔

عذرا کی طرح کئی لڑکیاں مڈل تک ہی سکول پڑھ پاتی ہیں اور چونکہ ساتویں ، آٹھویں کلاس میں انسان کی بلوغت کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں اس لئے اکثر کو ’’ اب بڑی ہوگئی ہے ‘‘ کہہ کر گھر بٹھا لیا جاتا ہے اور سکول اور تعلیم چھڑا لی جاتی ہیں اور اسے بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ عاقل ہونے کے لیے دستیاب سہولتوں سے اسے محروم کر دیا جاتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ اسکی تعلیم کا سلسلہ روک دیا جاتاہے اور انکو اس عمر میں دینی اور دنیاوی شعور جیسی انتہائی اہم ضرورت کے حصول سے محروم کر کے اسے کھانا پکانے، برتن دھونے گھر کی صفائی کرنے وغیرہ تک محدود کر دیا جاتا ہے اور پھر اس سے ایک بہترین بیوی، معاشرے کو سدھارنے بچوں کی بہترین تربیت کرنے انہیں تعلیم یافتہ بنانے جیسی امیدیں بھی لگا لی جاتیں ہیں اورپھر یہی معاشرہ زندگی بھر اسے طعنہ دیا جاتا ہے کہ میری بیوی یا میری ماں تو ان پڑھ جاہل ہے اسے کسی چیزکا کیا پتہ بس اسے تو صرف کھانے اور کا شاپنگ کا پتہ ہے۔
اس سارے معاملے میں عذرا کی مانند سکول چھوڑا دینے والی اس کم عمر بچی کا کیا قصور ہے کہ جس سے وقت پروہ تمام سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں اور پھر مختلف حالات میں اس سے تعلیم کے حصول کی دستیاب سہولتیں بھی چھین لی گئیں حالات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ہر معاملے اور مسئلے کا حل لڑکیوں کو ہائی اور ہائیر سکینڈری سکول سے اٹھا دینا ہی ہوتا ہے بجائے اس کے کہ ان کو درپیش مسائل حل کیے جائیں بچیوں کو ہی جہالت کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔
خیبر پختون خوا ایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن کی اعدادو شمار کے 5 سے 17 سال تک کی عمر کے 1.8ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں سے 64 فیصد بچیاںاور 36 فیصد بچے ہیں 5.6ملین طلبہ پرائمری.,6.51فیصد مڈل 4.97 فیصد ہائی اور 6.29فیصد بچے ہائیر سکینٖری سکولوں سے باہر ہیں جبکہ پرائمری تعلیم کے بعد79 فیصد بچیاں اور 69 فیصد بچےتعلیم کو خیر باد کہ دیتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کی سال 2016.17 کی رپورٹ کے مطابق پورے پاکستان میں 51.53فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں اور خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائیلی اضلاع میں یہ صورت حال مزید خراب ہے ان علاقوں میں 57 سکول جانے کی عمے کے بچوں میں سے 57 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ کرونا کے باعث بھی تعلیم کے شعبے پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے اور سکولوں سے بچوں کے نکل جانے کی شرح میں اضافہ ہوا۔
اس حوالے سے حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم شہرام کا کہنا ہے کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہے 8 لاکھ بچوں کو خصوصی مہم کے تحت سکولوں میں دا خل کرایا جائے گا اور سرکاری سکولوں میں سیکنٖ شفٹ بھی شروع کی جائے گی جبکہ 23 ہزار اساتذہ کو بھی بھرتی کیا جائے گا تا کہ زیادہ سے زیادہ مسائل حل ھو سکیں اور بچوں کو ور بچیوں کو سکولوں میں لایا جائے۔
سرکاری ہائی سکول کی ٹیچر عظمیٰ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کہ ہمارے سکول میں ساتویں کلاس کے تین سیکشن ہے اور ہر سیکشن میں 60 لڑکیاں ہیں اور اس طرح تقریبا 150 طالبات ہر سال ساتویں اور آٹھویں کلاس میں آتی ہیں جن میں اکثریت کے ساتھ یہ مسئلہ رہتا ہے ہم ہر سال کس کس کا مسلہ اپنی طرف سے حل کر سکتے ہیں یہ ماوں کی ذمہ داری ہے کہ عمر کے اس حصے میں بچیوں کے مسائل بروقت حل کریں ہم کس کس کے مسائل حل کریں گے اور ہر سال نئی لڑکیاں آجاتی ہیں والدین اپنی ذمہ دااری سمجھیں اور ایسے حالات پیدا نا ہونے دیں کہ بچیوں کو سکول سے اٹھا نا پڑے جبکہ ان کی کونسلنگ مائیں کریں انہیں سمجھائیں کہ اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ان کی وجہ سے اپنی زندگی اور مستقبل کو جہالت کی بھٹی میں نا جھونکیں۔
دو بچیوں کی والدہ طاہرہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میری دو بیٹیاں ہیں سکول میں اور پڑھائی میں ان کو دلچسپی نہیں تھی اس لیے میں نے سکول سے اٹھا لیا ھے کیا فائدہ ھے سکول بھیجنے کا جب وہ پڑھتی نہیں ہیں بہتر ھے گھر بیٹھیں اور کھانا پکانا سیکھیں در اصل وہ خود بھی ایک غیر تعلیم یافتہ ماں تھی جو تعلیم کی حیثیت اور اہمیت سے واقف نا تھی، لیکن دوسری جانب معاشرے میں ایسی ماوں کی کمی نہیں کہ جو خود تو تعلیم یافتہ نہیں لیکن اپنی بچیوں کو تعلیم کے حصول میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم کے کوآرڈینٹر قمر نسیم کا کہنا ہے کہ بچیوں کو سکول نا بھیجنے یا پھر سکول سے اٹھا لینے کی کئی وجوہات ہیں دو دراز علاقوں میں سکولوں کی کمی یا پھر موجود سکولوں میں سہولیات کی عدم دستیابی ۔ لڑکیوں کی جلد شادی کر دینے کا رجحان،معاشرتی رویئے ، غلط رسوم و رواجات،لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھنا اور تعلیم کو بچیوں کے گمراہ ہو جانے کی وجہ قرار دینا ایسی سوچ ہے کہ جو لڑکیوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button